بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عدد محض سے طلاق کا حکم


سوال

 کیا عدد محض سے طلاق واقع ہوسکتی ہے جیسے کسی نے طلاق کی نیت سے ایک دو تین کہا ،لیکن کسی قسم کی کوئی اضافت موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ اگر نہیں تو کیوں اور اگر ہو جاتی ہے تو کیوں؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق واقع کرنے کے لیے  طلاق  کے کسی لفظ کا تلفظ ضروری ہے،  خواہ وہ لفظ طلاق کے لیے صریح ہو یا کنایہ ، لہذا اگر کوئی شخص  زبان سے طلاق کا کوئی لفظ  نہیں کہتا ،  بلکہ صرف ایک دو تین کہتا ہے،   تو ایسے شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،ج:3،ص:230،سعید)

وفيه أيضا:

"(والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عن ذكر العدد، وعند عدمه الوقوع بالصيغة 

(قوله والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها أنت طالق ثلاثا طلقت ثلاثا، ولو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد، ومن أنه لو قال أنت طالق واحدة إن شاء الله لم يقع شيء ولو كان الوقوع بطالق لكان العدد فاصلا فوقع."

(کتاب الطلاق،مطلب الطلاق بعد د قرن بہ لا بہ،ج:3،ص:287،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511101772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں