بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عدالت سے جا کر خلع لے لو کہنے کے بعد بیوی کا عدالت سے خلع لینا


سوال

میرا داماد کماتا نہیں ہے،وہ میری بیٹی کو ہمارے گھر لایا اور کہا میں نہیں کماؤں گا،یہ خود کمائے گی،میں اس  کو چھوڑ دوں گا،لیکن کمائی   نہیں کروں گا،اس کے بعد اس کے والد صاحب نے کہامیرا بیٹا کمائی نہیں کرتا،عدالت سے خلع لے لو،پھر اس کے بیٹے(میرے  داماد) نے بھی کہا،میں چھوڑوں گا،عدالت سے جا کر خلع لے لو،ہم نے عدالت سے خلع لے لی،لیکن داماد اس نوٹس پر اب دستخط نہیں کررہا،کیا اس خلع سے طلاق واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟خلع نامہ سوال کے ساتھ منسلک ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے داماد نے جب سائلہ کی بیٹی سے کہا   ”عدالت سے جاکر خلع لے لو“،اس بنیاد پر سائلہ  کی بیٹی کا عدالت سے خلع لینے سے خلع صحیح ہو گئی، سائلہ کی بیٹی پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے اور سائلہ کی بیٹی کا نکاح  اس کے شوہر سے ختم ہوچکا ہے،سائلہ کی بیٹی عدت( تین ماہواری) گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن،الفصل الأول، 488/1، ط: دارالفکر)

وفيه ايضاً:

"ولو قال: اخلعي نفسك أو قال: اختلعي فالمسألة على وجوه ثلاثة: (أحدها) أن يقول: اخلعي نفسك بمال ولم يقدر فقالت: خلعت نفسي منك بألف ففي هذا الوجه لا يقع الطلاق ما لم يقل الزوج: أجزت كذا في فتاوى قاضي خان وهو ظاهر الرواية وروى ابن سماعة أنه يصح الخلع وبه أخذ بعض مشايخنا كذا في الفصول العمادية. (والثاني) أن يقول: اخلعي نفسك بألف درهم فقالت: خلعت في رواية يتم الخلع بألف درهم وإن لم يقل الزوج أجزت وهو الصحيح. (والوجه الثالث) أن يقول لها: اخلعي نفسك ولم يزد عليه فقالت اختلعت ذكر في المنتقى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا يكون خلعا.وروى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا قال لها: اختلعي نفسك فقالت: اختلعت يقع طلاق بائن بغير بدل كأنه قال لها: أبيني نفسك وبه أخذ أكثر المشايخ - رحمهم الله تعالى."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن، الفصل الثالث، 502/1۔503، ط: دارالفکر)

وفيه ايضاً:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، 526/1، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں