میں نے نومبر 2022 میں عدالت کے ذریعے خلع / تنسیخ نکاح کے لیے اپلائی کیا تھا، مجھے واضح نہیں تھا کہ خلع اور تنسیخ نکاح میں کیا فرق ہوتا ہے اور نہ مجھے کیس کی تفصیلات معلوم تھیں، عدالت نے میرے سابقہ شوہر کو نوٹس بھیجا۔
پہلی حاضری: ہماری کورٹ میں پہلی حاضری ہوئی، ہم دونوں موجود تھے، وہاں ہمارے بیان قلم بند کئے گئے اور ہم سے دستخط کروائے گئے،
میرا بیان: اب نبھاہ ممکن نہیں، مجھے خلع چاہیے۔
شوہر کا بیان: میں ہر صورت آباد کرنا چاہتا ہوں۔
اس کے بعد عدالت نے ہماری مصالحت کے لئے تاریخ بتائی جس میں ہم دونوں کو حاضر ہونا تھا۔
دوسری حاضری: مصالحت کے دن میں حاضر ہوئی، لیکن میرے شوہر حاضر نہ ہوئے، کیوں کہ ان کے وکیل نے ان کو غلط تاریخ بتائی تھی، عدالت نے نوٹس جاری کر دیا کہ مصالحت کی کوشش ناکام ہو گئی اور اسکے بعد عدالت نے اپنے طور پر تنسیخ نکاح کا نوٹس جاری کر دیا۔
پھر یونین کونسل میں معاملہ گیا، وہاں انہوں نے مصالحت کے لئے نوٹس بھیجا، نہ میں گئی وہاں اور نہ میرے شوہر وہاں مصالحت کے لئے گئے، اس کے 90 دنوں کے بعد مجھے یونین کونسل سے divorce certificate(طلاق نامہ) مل گیا، میں نے عدت کا ٹائم بھی گزار لیا ہے، لیکن مجھ سے حق مہر کی رقم واپس نہیں لی گئی، جو کہ 20,000 تھی۔
اب میرے شوہر کا کہنا ہے کہ نکاح ان کی رضامندی سے ختم نہیں ہوا اور ہم (میں اور میرے گھر والے) سمجھتے رہے کہ ان کی رضامندی سے ہوا ہے۔
1۔کیا میرا نکاح شریعت کی رو سے ختم ہو چکا ہے ؟
2۔اگر نہیں ختم ہوا تو کیا میں ابھی بھی ان کے نکاح میں ہوں ؟میں 2022 سے ان کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوں۔
3۔اگر نہیں ختم ہوا تو اب میں کیسے خلع لے سکتی ہوں ؟کیا صرف مہر کے پیسے واپس لوٹا دینے اور شوہر کا زبانی رضامندی کا اظہار کرنے سے ہو جائے گی ؟یا گواہوں کی موجودگی میں ہو گی ؟کیا طریقۂ کار ہوگا اب ؟
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ۔
صورتِ مسئولہ میں منسلکہ عدالتی فیصلہ کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ شرعی طور پر خلع معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جب کہ منسلکہ عدالتی فیصلہ میں شوہر کی رضامندی کا ذکر نہیں،نیزاس عدالتی فیصلے کو شرعاًتنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیوں کہ شرعا تنسیخِ نکاح کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ شرائط یہ ہیں کہ:شوہر مجنون ہو یا نامرد ہو یا مفقود الخبر( لاپتا ہو) یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو یا مار پیٹ کرتا ہو،پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے،محض اپنے بیا ن پر اکتفاء نہ کرے، جب کہ منسلکہ عدالتی فیصلہ میں یہ شرائط بھی موجود نہیں ،اس لیے اسے شرعی تنسیخ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ،لہذا سائلہ کا اپنے شوہرکے ساتھ نکاح ختم نہیں ہوا، بل کہ نکاح بدستور باقی ہے، تاہم اب اگر بیوی خلع لینا چاہتی ہے توشوہر کو پیش کش کرے اور وہ خلع کو زبانی طور پر منظور کرلے یا شوہر کو مہر واپس کرے اور وہ خلع کو قبول کرتے ہوئے مہر واپس لے لے تو خلع واقع ہوجائے گی۔ اور اس کے لیے گواہوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"و أما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:145، ط: دار الکتب العلمیة)
وفیہ أیضاً:
"وإن كان مقبوضا فعليها أن ترده على الزوج".
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:151، ط: دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده".
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط:سعيد)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد".
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173، ط: دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101838
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن