میری بیٹی اور داماد کے درمیان ازدواجی زندگی بہتر نہ رہی ،جس کی بناء پر میری بیٹی نے لندن میں عدالت سے یک طرفہ خلع لیا ہے،خلع کیس کے وکیل مسلمان تھے،لیکن جج مسلمان نہیں تھے،اب اس بارے میں پوچھنا یہ ہے کہ عدالت سے لیا ہوا ،یک طرفہ خلع شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ کیا اس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے یا نہیں؟
خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں عاقدین کی رضامندی شرط ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے، کوئی ایک فریق بھی راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا ،لہذا مذکورہ عدالتی یک طرفہ خلع شرعاً غیر معتبر ہے،کیوں کہ اس میں شوہر کی اجازت اور رضامندی نہیں پائی گئی ،جو کہ خلع میں شرط ہے،نیزاس فیصلہ میں یہ خرابی بھی موجودہےکہ یہ فیصلہ غیر مسلم جج نے دے دیا ہے،جب کہ فسخ نکاح میں غیر مسلم جج کا فیصلہ مسلمان کے خلاف شرعاً قابل قبول نہیں ہوتا،لہذا سائل کی بیٹی اور داماد کا نکاح بدستور قائم ہے،سائل کی بیٹی کے لیے اس خلع کی ڈگری کی بنیاد پر دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط:دارالفكربيروت)
وفیہ ایضاً:
"(قوله: أو اختلعي إلخ) إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."
( کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط:دارالفكربيروت)
حیلۂ ناجزہ میں ہے:
’’ اگر کسی جگہ فیصلہ کنندہ حاکم غیر مسلم ہو تو اس کا فیصلہ بالکل غیر معتبر ہے،اس کے حکم سے فسخ وغیرہ ہرگز نہیں ہوسکتا،(لان الکافر لیس باھل للقضاء علی المسلم کما ھو مصرح فی جمیع کتب الفقه) حتی کہ اگر روداد مقدمہ غیر مسلم مرتب کرے اور مسلمان حاکم فیصلہ کرے یا بالعکس تب بھی فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔‘‘
(موجودہ جج یا مجسٹریٹ وغیرہ کا فیصلہ کن شرائط کے ساتھ معتبر ہے؟ص:31،ط:دارالاشاعت،کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100620
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن