بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عدالت سے خلع لینے کا حکم اور تنسیخ نکاح کا شرعی طریقہ


سوال

گیارہ سال ہوگئے ہیں شوہر بیوی کو کوئی نفقہ نہیں دے رہا ہے،بیوی کو پتہ ہے کہ شوہر زندہ ہے،اس صورت میں عدالت سے خلع لینے کا کیا حکم ہے؟نیز عدالت سے خلع لینے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

جواب

خلع  مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،  اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کا شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالتی یک طرفہ خلع درست نہیں ،البتہ   اگر شوہر واقعتاً بیوی کو کوئی نفقہ نہیں دے رہا ہے اور نہ بیوی کو طلاق دے رہا ہو اور نہ خلع دینے پر راضی ہو تو مذکورہ عورت کے لیے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ عورت شوہر کے   نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر  تنسیخِ نکاح کا  مقدمہ مسلم  عدالت میں دائر کرے،پھر اپنے نکاح کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،اس کے بعد شوہر کے نان نفقہ  ادا نہ کرنے کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،پھرقاضی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے حقوق،نان و نفقہ  ادا نہیں کررہا تو  جج شوہرکوعدالت میں حاضر ہونے کاسمن جاری کرے  ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ  ہوجائے تو ٹھیک،لیکن  اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو یا حاضر ہو لیکن حقوق کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت نکاح فسخ کردے، جس کے بعد  عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"الخلع جائز عند السلطان و غیرہ لانہ عقد یعتمد التراضی کسائر العقود و ھو بمنزلۃ الطلاق بعوض و للزوج ولایۃ ایقاء الطلاق و لھا ولایۃ التزام العوض۔"

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173،ط:السعادۃ )

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القَبول."

(کتاب الطلاق، فصل فی الخلع، ج:3، ص:145،ط:دار الکتاب العربی)

حیلۂ ناجزہ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففي مجموع الأمیر ما نصه : أن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت عسره أنفق أو طلق  و إلا طلق علیه، قال محشیه: قوله: و إلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم...إلی أن قال: و إن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها،و قال ابن عبد الرحمن: لا مقال لها لأن سبب الفراق  هو عدم النفقة قد انتهی، و هو الذي  تقضیه المدونة کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی"

(الحیلة الناجزة، ص: 73، فصل في حکم زوجة المتعنت، ط: دار الإشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں