بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کا حکم


سوال

اشد ضرورت کہ بنا پر عدالت سے خلع لینے کا  کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زوجین میں نباہ  کی کوئی شکل نہ رہے، اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ، تو  شرعًا عورت کے لیے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مہر کے عوض خلع کی پیش کش کرکےشوہر سے خلاصی حاصل کرالے،  تاہم خلع نافذ ہونے کے لیے شوہر کی جانب سے بیوی کی پیشکش  قبول  کرنا ضروری ہے،  پس اگر شوہر خلع دینے راضی نہ ہو، تو کسی بھی فرد یا ادارے  کو یکطرفہ  خلع واقع کرنے کا شرعا اختیار نہیں ہوتا، پس اگر کوئی فرد یا ادارہ شوہر  کی مرضی کے بر خلاف خلع کی ڈگری  جاری کرتا ہے، تو ایسا  خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا، نکاح بدستور  قائم رہتا ہے، اور خاتون کے لیے کسی اور شخص سے نکاح کرنا حلال نہیں ہوتا، لہذا مسئولہ صورت  میں عدالت کے ذریعہ  خلع لینا اس وقت کار آمد ہوگا جب کہ شوہر اسے تسلیم کرلے، بصورت دیگر یکطرفہ  خلع کا فیصلہ  شرعا نافذ العمل نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، فصل فى ركن الطلاق، ج:3، ص:145، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں