ڈیڑھ سال قبل میری بیوی نے خلع لی، لیکن ابھی تک جج کا فائنل فیصلہ نہیں آیا تھا کہ ہم نے دوبارہ مصالحت کرلی تو کیا ان ڈیڑھ سال رجوع نہ کرنے اور ساتھ نہ رہنے کی وجہ سے نکاح تو ختم نہیں ہوا؟ کیا ہم دوبارہ ساتھ رہ سکتے ہیں یا تجدید نکاح کرنا ہوگا؟ نیز جج نے خلع کا اجمالی فیصلہ دے دیا تھا لیکن تفصیلی فیصلہ نہیں دیا تھا، اس سے پہلے مصالحت ہوگئی۔
واضح رہےکہ خلع ایک مالی معاملہ کی طرح ہے ،جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کی رضامندی شرعا ًضروری ہوتی ہے،اسی طرح خلع معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو ،اور دوسرا راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں خلع شرعا معتبر نہیں ہوگا،خواہ عدالت یکطرفہ طور پر خلع کا فیصلہ جاری کردے۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر بیوی نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا تھا، سائل (شوہر) اس پر راضی نہیں ہوا تھا اوراس نے عدالتی فیصلہ پر بھی رضامندی ظاہر نہیں کی تھی تو ایسی صورت میں یہ خلع معتبر ہی نہیں ہوا تھا، دونوں کا نکاح بدستور باقی تھا، ڈیڑھ سال علیحدہ رہنے سے بھی نکاح ختم نہیں ہوا، لہذا دونوں کا دوبارہ ساتھ رہنا جائز ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ اگر شوہر نے خلع کو قبول کرلیا تھا تو ایسی صورت میں بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی، پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے تجدید ِ نکاح ضروری ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول."
(کتاب الطلاق،فصل فی شرائط رکن الطلاق،3/ 145، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وشرطه كالطلاق) وهو أهلية الزوج وكون المرأة محلا للطلاق منجزا، أو معلقا على الملك. وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،3/ 441، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن