بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بہو کو بذریعہ رجسٹری مکان ہبہ کرنے کا حکم


سوال

میں ایک قانونی اور شرعی مسئلے کا حل جاننے کے لیے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں، میرے دادا محترم کے دو بچے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، بوقت نکاح میرے دادا نے اپنی جائیداد میری والدہ کو جو کہ ان کی بہو ہیں، بطور تملیک بذریعہ رجسٹری تحفہ کے طور پر دی تھی، اس وقت میرے دادا میرے والد اور میری پھوپھی تینوں ہی فوت ہو چکے ہیں، لیکن میری پھو پھی کے بچے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس جائیداد میں سے ان کو کچھ حصہ دیں، جس کی بابت دو بار ہم عدالتی کاروائی بھی جیت چکے ہیں، فیصلے سے مایوس ہو کر انہوں نے دو بار مجھ پر میری بہن پر اور میرے بھائی پر جان لیوا حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ہم شدید زخمی ہوئے اور بال بال بچ گئے، لہذا اس مسئلے کا حل جاننے کے لیے اور دنیاوآخرت میں کسی بھی قسم کے ازالے سے بچنے کے لیے میں آپ سے رہنمائی چاہتی ہوں کہ میرے دادا کی جو زر خرید جائیداد تھی، جو انہوں نے خوشی سے میری والدہ کو بطور تملیک دی تھی کیا اس میں ان کا کوئی قانوناً یا شرعاً حصہ بنتا ہےیا نہیں؟  برائے مہربانی ایک فتوی کی صورت میں میری رہنمائی فرمائیے جو کہ آگے جا کے بھی ہمیں مدد دے۔

تنقیح:1۔سائلہ کے والد اور پھوپھی کا انتقال دادا سے پہلے ہوا ہے یا بعد میں؟ 2۔شادی کے وقت جو جائیداد نام کی ہے وہ مہر میں تو شامل نہیں ہے۔ 3۔رجسٹری کے ذریعہ صرف نام کروایا تھا یا مکمل قبضہ وملکیت بھی دے دی تھی، نیز جو جائیداد نام کی تھی وہ خالی پلاٹ ہے یا رہائشی مکان ہے،اگر رہائشی مکان تھا تو دادا اسی مکان میں رہتے تھے یا کہیں اور۔اسی مکان میں رہتے تھے تو خالی کرکے سائلہ کی والدہ کے حوالے کیا تھا یا نہیں؟

جواب تنقیح:والد اور پھوپھی کا انتقال دادا کے بعد ہواہے۔جو جائیداد نام کی ہے وہ مہر میں شامل نہیں ہے۔قبضہ وملکیت  بھی اسی وقت دے دی تھی۔یہ رہائشی مکان تھا اور نیچے دکانیں موجود تھیں،مکان والدہ کے حوالے کیا گیا تھا،لیکن میرے والد  اکلوتے تھے،انہوں نے وفات تک دادا کو اسی مکان میں اپنے ساتھ رکھا۔

تنقیح:نیچے موجود دکان کا کرایہ کون وصول کرتا تھا؟اور کیا دادا نے مکان مکمل خالی کرکے قبضہ دینے کے بعد  اس مکان میں رہائش اختیار کی تھی؟

جواب تنقیح:کرایہ والدہ وصول کرتی تھیں اور ابھی تک والدہ ہی وصول کررہی ہیں۔نہیں! اسی  گھر میں  اوپر والی منزل  میں میری والدہ رہتی تھیں،نیچے دادا رہتے تھے،تملیک کے سات سال تک تقریباً وہ وہیں رہے،دادا الگ رہنا چاہتے تھے،لیکن میرے کوئی دوسرے چچا نہیں تھے،اس لیے میرے والد نے دادا سے اصرار کیا تھا کہ  وہ یہیں رہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی چیز محض کسی کے نام کرنے سے اس کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مالکانہ قبضہ و تصرف کے ساتھ مکمل طور پر اس کے قبضہ میں نہ دے دی جائے،اور ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کا قبضہ   تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اس سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس  سے نکل جائے،   اگر مکان میں موجود سامان بھی مکان کے ساتھ ہبہ کردیا جائے  تو پھر اس مکان اور  موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے)  میں تخلیہ کردینا کافی ہے، اور  تخلیہ کی صورت یہ ہے کہ  واہب کچھ وقت کے لیے اس مکان سے نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،  پھر ہبہ کرنے والا اگر موہوب لہ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کی اجازت سے اس مکان میں رہائش اختیار کرے تو یہ ہبہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہبہ کرنے والا خود اس مکان میں موجود ہو  یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا اور مکان  اصل مالک (واہب)  ہی کی ملکیت میں رہتا ہے،اسی طرح دکان  کا ہبہ(گفٹ)  اگر مذکورہ طریقہ کےمطابق ہو توہبہ تام  ہوگا ورنہ دکان اصل مالک ہی کا رہے گا ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے زیر نظر مسئلہ میں یہ بات واضح ہوتی ہےکہ مکان دو منزلہ ہے اور اس کےنیچے دکانیں بھی ہیں،چوں کہ سائلہ کی والدہ دوسری منزل میں پہلے سے مقیم تھی،اس منزل میں دادا کا کوئی عمل دخل نہیں تھا،اسی طرح   دکانیں بوقت ہبہ اگرچہ کرایہ پرتھیں ، لیکن ہبہ کے بعد سے ابھی تک  دکانوں کی کرایہ داری کا معاملہ سائلہ کی والدہ بذات خود  سنبھال رہی ہیں اور   وہی ان کا کرایہ بھی   وصول کرتی آرہی ہیں،لہذا مذکورہ مکان کی دوسری منزل اور دکانوں میں ہبہ تام ہونے کی وجہ سے یہ سائلہ کی والدہ کی ملکیت ہے۔

تاہم مذکورہ مکان کی پہلی منزل جس میں دادا رہائش پذیر تھے،چوں کہ وہ دادا نے  خالی کرکے سائلہ کی والدہ کے حوالے نہیں کیا تھا،بلکہ دادا انتقال تک  اسی منزل میں سکونت پذیر  رہے ہیں،لہذا یہ مذکورہ  منزل ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے سائلہ کی والدہ کی ملکیت نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ منزل بدستور  دادا  کی ملکیت ہے، اور ان کی وفات کے وقت موجود ورثاء  یعنی سائلہ کے والد اور پھوپھی میں ان کے حصص شرعیہ  کے موافق تقسیم ہو گا۔ چوں کہ سائلہ کے والد اور پھوپھی دونوں کااب  انتقال ہوچکا ہے تو ان کے حصے ان کے  ورثائے شرعی میں تقسیم ہوں گے۔

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"أما ‌هبة ‌المشغول فلا تجوز أي لا تجوز هبة المال المشغول بمتاع الواهب وملكه (البهجة) ؛ لأن الموهوب إذا كان مشغولا بمتاع الواهب كان كالمشاع وفي حكمه. مثلا لو وهب أحد داره المشغولة بأمتعته وسلمه إياها فلا تجوز. إلا إذا سلمها بعد تخليتها من الأمتعة المذكورة. فحينئذ تصح الهبة كما تصح لو وهبه الأمتعة أيضا وسلمه الكل معا (انظر المادة 24) (الطحطاوي) ."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، المبحث الأول في حق الشروط الباقية المتعلقة بالموهوب، ج:2، ص:448، ط:دار الجيل)

البحرالرائق میں ہے:

"‌وفي ‌الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ."

 (کتاب الهبة، ج:7، ص:284، ط:دارالکتاب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو وهب النصف وسلم الجميع لم يجز، ولو وهب الجميع وسلم متفرقا جاز، كذا في التتارخانية."

(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:478، ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں