آدمی کا گھر میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
مردوں کو فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنت موٴکدہ ہے جو حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، بغیر کسی شرعی عذر کے تنہا گھرمیں نماز پڑھنے کی عادت بنانا سخت مکروہ ہے نماز تو ہوجاتی ہے یعنی اس کو لوٹانے کا حکم نہیں ہے تاہم جماعت کا جو اجر وثواب اور دنیا وآخرت کی جو برکات ہیں ان سے محرومی ہوتی ہے۔احادیث میں جماعت کی نماز چھوڑ کر گھر میں اکیلےنماز پڑھنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ:جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ چند نوجوانوں سے کہوں کہ وہ ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاوٴں جو بلاعذر کے گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلادوں۔ اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جسے خواہش ہوکہ کل (قیامت کے دن)اللہ تعالیٰ کے سامنے مسلمان ہونے کی حالت میں حاضر ہو،اسے چاہیے کہ پانچوں نمازوں کی پابندی ان مقامات میں کرے جہاں اذان ہوتی ہو (یعنی جماعت سے نماز پڑھی جاتی ہو) ؛ کیونکہ یہ نمازیں (مسجد کے اندر جماعت کے ساتھ ادا کرنا) ہدایت کے طریقے ہیں اوربے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے جاری فرمائے ہیں۔ اگر تم سب اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرو گے تو بے شک تم سے تمہارے نبی کی سنت چھوٹ جائے گی اور اگر تم اپنے پیغمبر کی سنت چھوڑ دو گے تو بلاشبہ گمراہ ہوجاؤ گے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا تو کھلا ہوا منافق جماعت ترک کرتاتھا یا پھر ایسا مریض جو دو آدمیوں کے سہارے بھی نہ آسکتاہو، ورنہ مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے گھسٹتے قدموں آکر مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے تھے۔ اور جوشخص اچھی طرح وضو کرکے نماز کے لیے مسجد میں جاتاہے تو اسے ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے، ایک مرتبہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مدینہ میں موذی حشرات اور درندے بہت ہیں اور میں نابینا ہوں، کیا میرے لیے جماعت چھوڑنے کی کوئی رخصت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم "حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح" سنتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت نہ دی، اور فرمایا کہ آیا کرو۔ایک روایت میں ہے: کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نمازسےستائیس(27) درجے افضل ہے۔
البتہ اگر کبھی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے اور دوسری قریبی مسجد میں بھی جماعت ملنے کی توقع نہ ہو تو گھر میں نماز باجماعت یا بلاجماعت پڑھنے میں حرج نہیں۔ کچھ اعذار ایسے ہیں جس کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی گنجائش ہے، وہ اعذار (وجوہات) حسب ذیل ہیں: ستر چھپانے کے بقدر کپڑا موجود نہ ہو۔ سخت کیچڑ ہو، بہت تیز بارش ہورہی ہو ، سخت سردی ہوکہ باہر نکلنے اور مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہونے یا بڑھ جانے کا خوف ہو۔ مسجد تک جانے میں مال واسباب کے چوری ہوجانے کا خوف ہو۔ مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو۔ سخت تاریکی ہو اور راستہ دکھائی نہ دیتا ہو، یا بہت سخت آندھی چلتی ہو۔ کسی مریض کی تیمار داری کے لیے رکنا ضروری ہو کہ چھوڑکر جانے سے مریض کی جان کا خطرہ ہو، گاڑی نکلنے کا خطرہ ہو، وغیرہ ۔
"يزيد بن الأصم قال:سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لقد هممت أن آمر فتيتي فيجمعوا حزمًا من حطب، ثم آتي قومًا يصلون في بيوتهم ليست بهم علة فأحرقها عليهم".
أخرجه أبوداود في سننه في باب التشديد في ترك الجماعة (1/ 411) برقم (549)، ط. دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى: 1430 هـ = 2009 م)
وفي حديث:
"عن عبد الله قال: من سره أن يلقى الله غدا مسلما، فليحافظ على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن، فإنهن من سنن الهدى، وإن الله شرع لنبيكم - صلى الله عليه وسلم - سنن الهدى، ولعمري لو أن كلكم صلى في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد رأيت الرجل يهادى بين الرجلين حتى يدخل في الصف. وما من رجل يتطهر فيحسن الطهور، فيعمد إلى المسجد فيصلي فيه، فما يخطو خطوة إلا رفع الله له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة".
أخرجه ابن ماجه في سننه في باب المشي إلى الصلاة (1/ 497) برقم (777)، ط. دار الرسالة العالمية،الطبعة الأولى: 1430 هـ = 2009 م
وفي حديث:
"عن ابن أم مكتوم قال: يا رسول الله، إن المدينة كثيرة الهوام والسباع، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "تسمع: حي على الصلاة، حي على الفلاح؟ فحي هلا" .
أخرجه أبوداود في سننه في باب التشديد في ترك الجماعة (1/ 415) برقم (553)، ط. دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى: 1430 هـ = 2009 م)
وفي حديث:
"صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة ".
أخرجه البخاري في صحيحه في باب وجوب صلاة الجماعة (1/ 231) برقم (619)، ط. دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت، الطبعة الثالثة : 1407 = 1987)
الجوهرة النيرة میں ہے:
"(قوله: والجماعة سنة مؤكدة) أي: قريبة من الواجب. وفي التحفة واجبة لقوله تعالى {واركعوا مع الراكعين} [البقرة: 43]، وهذا يدل على وجوبها، وإنما قلنا إنها سنة لقوله - عليه السلام - «الجماعة من سنن الهدى لايتخلف عنها إلا منافق» وقال - عليه السلام - «ما من ثلاثة في قرية لا يؤذن فيهم ولا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، عليك بالجماعة فإنما يأخذ الذئب الفارة» استحوذ أي: استولى عليهم وتمكن منهم، وإذا ثبت أنها سنة مؤكدة فإنها تسقط في حال العذر".
(الجوهرة النيرة: كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة (1/ 59)، ط. المطبعة الخيرية، الطبعة الأولى: 1322هـ)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين، وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ضياع ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه، وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه. كذا في السراج الوهاج".
(الفتاوى الهندية: كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الأول في الجماعة (4/ 83)، ط. رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144309100897
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن