اگرکسی شخص نے دکان کرایہ پر لی اور ایڈوانس میں 500000 (پانچ لاکھ) روپے دیے، کیا اس پیسے میں زکوۃ ہے؟
کرایہ داری کے معاملہ میں زر ضمانت کے طور پر مالک کے پاس جو رقم رکھوائی جاتی ہے وہ ابتداءً امانت ہوتی ہے اوراس کااصل مالک کرایہ دارہی ہوتا ہے، اور یہ رقم کرایہ دار کو بعد میں واپس ملتی ہے، لہذا اس کی زکاۃ کرایہ دار کے ذمہ ہے، البتہ اس (رقم کی زکاۃ) کی ادائیگی فوری لازم نہیں ہے، بلکہ مذکورہ رقم کی وصولی کے بعد دینا لازم ہوگی، تاہم اگر زکاۃ کا سال پورا ہوجائے تو وصولی سے پہلے بھی اس کی زکاۃ ادا کرسکتے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(2/ 305، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110201529
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن