ایک شخص نے ایک بلڈر سے فلیٹ بک کرنے کے حوالے سے رقم کا کچھ حصہ دے کر بکنگ کروائی، بکنگ کے بعد کرونا کا مسئلہ آگیا، معاملہ آگے نہیں بڑھا اور وہیں رک گیا، اب بلڈر کا کہنا ہے کہ جو پچھلی رقم جمع کروائی تھی اس پر بکنگ نہیں ہوگی، بلکہ مزید اضافی رقم (موجودہ ویلیو کے حساب) سے بکنگ ہوگی، جب کہ جنہوں نے بکنگ کروائی تھی ان کا کہنا ہے کہ جتنے سال رقم ان کے پاس رہی اتنے سال کا کرایہ بلڈر ہمیں دے ،اور پچھلی رقم پر ہی بکنگ ہونی چاہیے، نئی رقم کی بکنگ ہمیں منظور نہیں، آیا جانبین کا یہ مطالبہ درست ہے؟
واضح رہے کہ پروجیکٹ نہ ہی تعمیر ہوا تھا نہ ہی بنیاد ڈالی گئی تھی،بس پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں جب فلیٹ تعمیر ہی نہیں ہوئے تھے اور لوگوں نے بلڈر کو رقم دے کر اس سے بکنگ کروائی تو یہ فریقین کے درمیان خرید وفروخت کا ایک وعدہ تھا،حالات کی تبدیلی کے باعث یہ وعدہ مکمل نہیں ہوسکا،اور اس کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا ،لوگ اپنی جمع کرائی ہوئی رقم لینے کے حق دار ہیں،اس پر بلڈرسے درمیانی مدت کے کرایہ کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں،لیکن بلڈر نے ایک لمبے عرصے تک ان لوگوں کی رقم اپنے پاس رکھی ہےاس لیے بہتر یہ ہے کہ فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی درمیانی راستہ اختیار کرلیں۔
فتاوى ہنديہ میں ہے:
وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم، والمغضوب لو باعه الغاضب ثم ضمنه نفذ بيعه."
(كتاب البيوع، الباب الأول، ج:3، ص:2، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:84، ط:دار الفكر-بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602100258
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن