بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایڈوانس رقم کو مالکِ مکان کا اپنے ذاتی استعمال میں لانے کا حکم


سوال

کیا مالک مکان ایڈوانس(securitydeposit)کی رقم اپنے استعمال میں لے سکتا ہے؟یعنی اپنے کاروبار میں یا اپنی کسی ضرورت میں؟

جواب

واضح رہے کہ مالکِ مکان کوجو رقم بطورِ ایڈوانس دی جاتی ہےوہ  رقم فی نفسہ  تواس مالکِ مکان  کے پاس امانت ہوتی ہے،لہذا اجازت لے کر استعمال میں لانا چاہیے،  ہاں  اگر عرف میں  مالکِ مکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛تو اس صورت میں صراحۃً اجازت لینے کے بغیر بھی استعمال میں لانا جائز ہو گا،اور یہ رقم شرعاً اس مالکِ مکان کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌العادة ‌محكمة وأصلها قوله عليه الصلاة والسلام: {ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن} ... و اعلم أن اعتبار العادة و العرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلًا، فقالوا في الأصول في باب ما تترك به الحقيقة: تترك الحقيقة بدلالة الاستعمال ... و العادة أن المعروف كالمشروط، و في البزازية المشروط عرفًا  كالمشروط شرعًا."

(الفن الأول، القاعدة السادسة، ص:79،85، ط: دار الكتب العلمية)

شرح المجلۃ میں ہے:

" لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالة منه أو ولاية عليه و إن فعل كان ضامنًا."

(المادة:96، ص:61، ط: بيروت)

آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ہے:

’’کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم:

سوال:… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟جواب:… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔۔۔سوال:… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

جواب:… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو     مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔‘‘

( ج:7، ص:167،  ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511102301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں