”حوا فاؤنڈیشن“ کی جانب سے امریکہ میں ایک مسجد بنام ”حوا مسجد“ تعمیر کی گئی ہے، جس میں بیک وقت تقریباً پانچ سو لوگوں کی نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس مسجد میں نمازِ پنجگانہ، جمعہ اور عیدین بھی اداکی جاتی ہے، چونکہ عیدین میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور تقریباً پندرہ سو کے قریب لوگ نمازِ عید کے لیے آتے ہیں، جن کا بیک وقت مسجد میں سَمانا ممکن نہیں ؛ اس لیے عید کی نماز کے لیے تقریبا ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے سے تین جماعتیں کرائی جاتی ہے۔ مذکورہ مسجد وقف کرنے والوں کی جانب سے مسجد کے کمیٹی والوں سے یہ بھی کہا گیا کہ ”عیدین کی نماز میں حاضرین کی بڑی تعداد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مسجد میں کئی جماعت کرانی پڑتی ہے، کئی جماعت کرنے کے بجائے ہم ایک بڑے میدان کا انتظام کردیتے ہیں، تاکہ تمام حاضرین اکھٹے نمازِ عید ادا کر سکیں ۔“ تو کیا ایسی صورت میں نمازِ عید کے لیے میدان کا انتظام ہونے کے باوجود مذکورہ مسجد میں عید کی 3 جماعتیں مختلف اوقات میں کرانا شرعًا درست ہوگا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب عید کی نماز کے لیے بڑے میدان کا (بطورِ عید گاہ) انتظام ہورہا ہے، جس میں تمام حاضرین بیک وقت نمازِ عید ادا کر سکتے ہیں، تو اس (میدان کے انتظام) کے باوجود ایک ہی مسجد میں کئی بار متفرق طور پر باجماعت عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ ایک مسجد میں ایک مرتبہ نماز ادا ہوجانے کے بعد دوبارہ اسی مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے،لہٰذا جب مسجد چھوٹی ہے اور اس میں تمام لوگ بیک وقت نہیں سما سکتے، تو وقفے وقفے سے عید کی متعدد جماعتیں ادا کرنے کے بجائے کسی بڑے اور کھلے میدان یا پارک وغیرہ میں عید کی نماز ادا کرنی چاہیے، تا کہ تمام افراد ایک ساتھ عید کی نماز ادا کر سکیں؛ کیوں کہ جتنے بڑے مجمع کے ساتھ عیدگاہ یا جامع مسجد میں نماز عید ادا کی جائے اتنا ہی شرعا مطلوب و پسندیدہ ہے، اور عید کی نماز کے لیے سنت بھی یہی ہے کہ نمازِ عید کسی میدان یا کھلی جگہ میں قائم کی جائے۔
البتہ اگر کسی ناگزیر وجہ سے (کبھی) میدان یا پارک وغیرہ کا انتظام نہ ہو، یا وہاں کے غیر مسلم سرکار اس کی اجازت نہ دے رہی ہو، تو ایسی صورت میں عذر کی بنا پر ایک مسجد میں عید کی کئی جماعت کرانے کی گنجائش ہوگی، البتہ ایسی صورت میں جو شخص ایک مرتبہ نماز ادا کرلے دوسری جماعت میں اس کا امام بننا درست نہیں ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے :
"عن أبي سعيد الخدري قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى، فأول شيء يبدأ به الصلاة».
(الصحيح للبخاري، كتاب العيدين، باب الخروج إلى المصلى بغير منبر، رقم الحديث:256، ج:2، ص:17، ط:دار طوق النجاة بيروت)
ترجمہ: ”حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کے روز نمازِ عید کے لیے عید گاہ تشریف لے جاتے تھے، پس عید گاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا عمل ”نماز“ ہوتی تھی۔“
"عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوا فرادی."
(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولایجمعون، رقم الحدیث: 7111، ج: 2، ص: 113، ط: دار التاج لبنان)
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام جب مسجد میں آتے کہ وہاں نماز ہوچکی ہوتی تو وہ انفرادی نماز ادا کرتے تھے۔
کفایت المفتی میں ہے:
”سوال: بارش کی شدت کی وجہ سے بہت سے آدمی عید گاہ نہیں جاسکے، انہوں نے عید کی نماز مسجد میں ادا کی، پھر کچھ اور آدمی آئے، انہوں نے اسی مسجد میں دوبارہ جماعت سے نمازِ عید پڑھی، یہ کیسا ہے؟
جواب: بارش کے عذر (کی وجہ) سے مسجد میں عید کی نماز پڑھنی جائز ہے، ایک مسجد میں دو مرتبہ عید کی نماز نہ پڑھی جائے، اگر ایک مسجد میں عید کی نماز پڑھی اور کچھ لوگ رہ گئے تو وہ دوسری مسجد میں نماز پڑھ لیں۔“
(کتاب الصلوٰۃ، الباب السادس، بعنوان:ایک مسجد میں عید کی نماز دو مرتبہ نہیں پڑھنی چاہیے، ج:9، ص:453، ط:دار الاشاعت کراچی)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
”سوال: عید گاہ میں چند لوگ عید کی نماز پڑھنے سے رہ گئے، تو وہ لوگ عید گاہ میں عید کی نماز مکرر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ یا کسی اور جگہ پڑھیں؟
جواب: عید گاہ اور عید گاہ کے باہر بھی جگہ نہ ہو اور لوگ نماز ادا کرنے سے رہ جائیں تو باقی ماندہ لوگ ایسے مسجد میں جہاں نمازِ عید نہ پڑھی گئی ہو دو گانہ عید ادا کریں، اگر ایسی جگہ نہ ہو تو ہال میں پڑھیں، مگر وہاں سب کو نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے، عید گاہ میں دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے، اور دوسری جماعت میں دوسرا امام ہونا ضروری ہے، جس نے پہلی مرتبہ نماز ادا کر لی ہے وہ امام نہیں بن سکتا۔“
(کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ و العیدین، بعنوان:عید کی نماز دوسری مرتبہ پڑھنا، ج:6، ص:150، ط:دا الاشاعت کراچی)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
”سوال: جس مسجد میں ایک بار نمازِ عید پڑھائی جائے، تو پھر اسی ہی وقت میں کوئی دوسرا مولوی بعض لوگوں کو دوبارہ عید پڑھائے، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر کوئی شخص یا متعدد افراد نمازِ عید سے رہ جائیں، تو کوشش کریں کہ کسی دوسری جگہ جامع مسجد یا عید گاہ جہاں جماعت ملنے کا امکان ہو پہنچیں؛ کیونکہ نمازِ عید ایک شہر میں متعدد جگہ ہوسکتی ہے، اور اگر دوسری جگہ بھی نمازِ عید ملنے کا امکان نہ ہو، تو اب نمازِ عید تنہا یا چند آمیوں کا مل کر ادا کرنا جائز نہیں، یعنی اسی عید گاہ میں جہاں ایک مرتبہ نمازِ عید ہوچکی ہو۔“
(کتاب الصلوٰۃ، باب فی احکام العیدین، بعنوان: ایک مسجد میں دو مرتبہ عید کا حکم، ج:2، ص:859، ط:جمعیۃ پبلیکیشنز لاہور)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات."
(كتاب الصلاة، الباب السابع عشر في صلاة العيدين، ج:1، ص:150، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ثم خروجه) ليفيد تراخيه عن جميع ما مر (ماشيا إلى الجبانة) وهي المصلى العام، والواجب مطلق التوجه (والخروج إليها) أي الجبانة لصلاة العيد (سنة وإن وسعهم المسجد الجامع) هو الصحيح.
وفي الرد: (قوله: هو الصحيح) قال في الظهيرية. وقال بعضهم: ليس بسنة وتعارف الناس ذلك لضيق المسجد وكثرة الزحام والصحيح هو الأول. اهـ. وفي الخلاصة والخانية السنة أن يخرج الإمام إلى الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ."
(كتاب الصلاة، باب العيدين، ج:2، ص:169، ط:ايج ايم سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ولنا) ما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار لتشاجر بينهم فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة، ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لما تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم مع علمه بفضل الجماعة في المسجد. وروي عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة صلوا في المسجد فرادى؛ ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فيستعجلون فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم يتأخرون فتقل الجماعة، وتقليل الجماعة مكروه."
(كتاب الصلاة، فصل بيان محل وجوب الأذان، ج:1، ص:153، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101736
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن