ہمارے آزاد کشمیر میں علاقوں کی نوعیت یہ ہے کہ مختلف اضلاع میں حلقہ جات ہیں، پھر ان حلقہ جات کے اندر تحصیلیں ہیں، جن کا حدودِ اربعہ ایک حلقہ سے کم ہوتا ہے، پھر ان تحصیلوں کے اندر یونین کونسلز ہیں، جو تحصیل سے کم حدودِ اربعہ پر مشتمل ہیں، پھر یونین کونسلز کے اندر مختلف وارڈز ہیں، اور پھر وارڈز میں محلہ جات ہیں (محلوں کی نوعیت پنجاب اور دیگر علاقوں سے مختلف ہے، مثلاً: دو تین گھر یہاں پر ہیں، پھر کچھ فاصلہ پر دو تین گھروہاں ہیں، یوں تقریباً 60، 70 گھروں پر مشتمل علاقہ کو محلہ کا الگ نام دیا جاتا ہے)
اب سوال یہ ہے کہ ہم باہر سے 25، 30 دن کے لیے آنے والی جماعتوں کے لیے ایک بستی کا حکم کس پر لگائیں گے، کیا ایک محلہ میں تین دن کے بعد جب دوسرے محلہ جماعت جائے گی تو وہ الگ بستی میں شمار ہوگی؟ یا ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ؟ یا پھر ایک یونین کونسل سے دوسرے یونین کونسل؟ راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ کسی فرد یا جماعت کا کسی شہر، بڑے گاؤں، بستی اور دیہات وغیرہ میں مسافر یا مقیم بننے کے لیے بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ اپنے شہر/قصبہ کی حدود سے نکل کر اڑتالیس میل (تقریباً سوا ستتر کلو میٹر) سفر کر کے کسی شہر، بڑے گاؤں یا ایک ہی بستی میں پندرہ یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، تو تنہا فرد یا جماعت کے افراد مقیم کہلائیں گے، اور پوری نماز پڑھیں گے، خواہ وہ وہاں کسی بھی محلہ یا مسجد میں چلے جائیں، البتہ کسی شہر، بڑے گاؤں یا ایک بستی کی بجائے اگر چھوٹی چھوٹی بستیوں یا دیہاتوں (جن کا نام وغیرہ بھی الگ ہو، اور وہاں کے مقامی لوگ بھی اسے علیحدہ شمار کرتے ہوں) میں پندرہ یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، لیکن کسی ایک بستی میں نہیں بلکہ کچھ دن ایک بستی میں اور کچھ دن دوسری بستی میں، تو ایسی صورت میں اکیلا فرد یا جماعت مسافر کہلائے گی، اور سفر کی نماز پڑھے گی، نیز شہر کے ساتھ متصل گاؤں/دیہات جس کے رہائشیوں پر جمعہ کی نماز واجب ہے، وہ بھی شہرکے حکم میں ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آزاد کشمیر کے کسی بھی شہر، بڑے گاؤں یا ایک بستی میں آنے والی تبلیغی جماعت شرعی سفر (سوا ستتر کلو میٹر) طے کر کے وہاں پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت کا ارادہ رکھتی ہو، تو وہ مقیم کہلائے گی، اور پوری نماز پڑھے گی، اگرچہ تبلیغی کام کے لیے وہاں کی مختلف مساجد و محلوں میں وقفہ وقفہ سے منتقلی کا سلسلہ جاری رہتا ہو، لیکن اگر جماعت کی تشکیل آزاد کشمیر کے کسی شہر، بڑے گاؤں یا ایک بستی کی بجائے مختلف چھوٹی چھوٹی بستیوں کی طرف ہوئی ہو، اور ان میں سے کسی ایک بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت نہ کرتی ہو، بلکہ ہر ایک بستی میں کچھ دن گزار کر دوسری بستی میں جانا پڑتا ہو، تو ایسی صورت میں جماعت مسافر ہوگی، اور سفر کی نماز پڑھے گی، البتہ ایک ہی بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت ہوتو اس میں پوری نماز ادا کرے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسئولہ صورت میں قصر و اتمام کا تعلق شہر، گاؤں، دیہات اور چھوٹی بڑی بستیوں کے ساتھ ہے نہ کہ مختلف حلقہ جات، کونسلز اور محلہ جات وغیرہ کے ساتھ، ان کا تعلق حکومتی انتظام کے ساتھ ہے۔
الاصل للامام محمد میں ہے:
"قلت: أرأيت الرجل إذا خرج من الكوفة إلى مكة ومنى وهو يريد أن يقيم بمكة ومنى خمسة عشر يوماً أيكمل الصلاة حين يدخل مكة؟ قال: لا. قلت: لم؟ قال: لأنه لا يريد أن يقيم بمكة وحدها خمسة عشر يوماً. قلت: ولا تعد مكة ومنى مصراً واحداً؟ قال: لا."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:1، ص:233، ط:دار ابن حزم، بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافرا:....فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: أحدها: مدة السفر....والثاني: نية مدة السفر....والثالث: الخروج من عمران المصر."
(كتاب الصلاة، فصل:بيان ما يصير به المقيم مسافرا، ج:1، ص:93، ط:دار الكتب العلمية)
وفيه أيضاً:
"وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء:....نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة.....(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيما وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقة وحكما، ألا ترى أنه لو خرج إليه المسافر يقصر فلم يوجد الشرط، وهو نية الإقامة في موضع واحد خمسة عشر يوما، فلغت نيته."
(كتاب الصلاة، فصل:بيان ما يصير به المسافر مقيما، ج:1، ص:97، ط:دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"الإقامة لا تكون في مكانين إذ لو جازت في مكانين لجازت في أماكن فيؤدي إلى أن السفر لا يتحقق؛ لأن إقامة المسافر في المراحل لو جمعت كانت خمسة عشر يوما أو أكثر....وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة نصف شهر لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا يتحقق الشرط...قيد بالمصرين ومراده موضعان صالحان للإقامة لا فرق بين المصرين أو القريتين أو المصر والقرية للاحتراز عن نية الإقامة في موضعين من مصر واحد أو قرية واحدة فإنها صحيحة؛ لأنهما متحدان حكما، ألا ترى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:143، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو نوى الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان كل منهما أصلا بنفسه نحو مكة ومنى والكوفة والحيرة لا يصير مقيما وإن كان أحدهما تبعا للآخر حتى تجب الجمعة على سكانه يصير مقيما."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1، ص:140، ط:مكتبه ماجديه، كوئته)
فتاوی شامی میں ہے:
"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى)....أو كان أحدهما تبعا للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه للاتحاد حكما. (قوله: بموضعين مستقلين) لا فرق بين المصرين والقريتين والمصر والقرية بحر.....(قوله: أو كان أحدهما تبعا للآخر) كالقرية التي قربت من المصر بحيث يسمع النداء على ما يأتي في الجمعة وفي البحر لو كان الموضعان من مصر واحد أو قرية واحدة فإنها صحيحة لأنهما متحدان حكما ألا ترى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر. اهـ. ط."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:126، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا....(قوله: أقل من غلوة) هي ثلثمائة ذراع إلى أربعمائة هو الأصح بحر عن المجتبى."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:121، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102512
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن