بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک قبر میں میاں بیوی کو ایک ساتھ دفن کرنا


سوال

اگر میاں بیوی دونوں کی وفات ایک ہی دن ہو جاے تو کیا دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جاسکتا ہے؟

جواب

ایک قبر میں ایک سے زیادہ میتوں کی تدفین بلاضرورتِ شدیدہ جائز نہیں، خواہ  وہ آپس میں میاں بیوی ہوں ،یا بہن بھائی ہوں یا باپ بیٹا ہوں ،غرض ان کے درمیان کوئی رشتہ ہوبلاضرورتِ شدیدہ ایک قبر میں ایک سے زائد میتوں کو دفن کرنا جائز نہیں ۔

ضرورتِ شدیدہ یہ ہےکہ کسی وباء ،سماوی آفت یا جنگ وغیرہ کے موقع پر اموات اس قدر کثرت سے ہو جائیں کہ ان سب کی تدفین انتہائی مشکل ہو،یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہر ایک کے لیے قبر کی جگہ میسر نہ ہو تو اس صورت میں ایک قبر میں ایک سے زائد میتوں کی تدفین بقدرِ ضرورت جائز ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرتبہ میں افضل شخص کو قبلہ کی دیوار کی جانب لٹایا جائےپھر اس کے پیچھے مٹی کی آڑ بنا کر اس سے کم مرتبہ شخص کو ،اسی طرح اگر مرنے والوں میں مرد وزن اور بچے  سب ہوں تومذکورہ طریقہ کے مطابق  سب سے پہلے  قبلہ کی دیوار کی جانب مردوں  کو ،پھر  بچوں کو اور پھر عورتوں کو لٹایا جائے۔

نیز اگر قبرستان میں جگہ تنگ ہو تو اس صورت میں  اتنی پرانی قبر جس میں  میت  کاجسم  بالکل مٹی ہو چکا اس میں دوسری میت کو دفن کیا جاسکتاہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"1347 - حدثنا ابن مقاتل: أخبرنا عبد الله: أخبرنا ليث بن سعد: حدثني ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌كان ‌يجمع ‌بين ‌الرجلين ‌من ‌قتلى ‌أحد في ثوب واحد، ثم يقول: أيهم أكثر أخذا للقرآن. فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد، وقال: أنا شهيد على هؤلاء. وأمر بدفنهم بدمائهم، ولم يصل عليهم، ولم يغسلهم."

(كتاب الجنائز، باب من يقدم في اللحد،ج: 2 ، ص: 92، ط: السلطانية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا ‌يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح، ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعة قياما لمخالفتها السنة إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد ‌بلا ‌ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. "

(کتاب الصلوۃ ،باب الجنائز،ج:2،ص:233،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں