بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوٹل میں نوکری کرنا جب کہ معلوم نہ ہو کہ کرائے پر لینے والے وہاں کیا کریں گے؟


سوال

اگر میں ایسے ہوٹل میں کام کروں جہاں کمرے کرایہ پر دیے جاتے ہوں اور نہیں علم کہ کرایہ پر کمرہ لےکر کمروں میں کیا کرتے ہوں گے؟! نہیں معلوم وہ شادی شدہ جوڑے ہیں یا کپلز ؟ تو ایسی صورت میں وہاں نوکری کرنا اور اس کی اجرت حرام ہوگی یا حلال ؟

جواب

سائل کےلیےاس ہوٹل میں کام کرنادرست ہےجہاں کمرےکرایہ پردیئےجاتےہیں،اس کی تنخواہ حلال ہے،تاہم ہوٹل انتظامیہ ایسےلوگوں کوکمرےنہ دےجن کےبارےمیں غالب گمان ہوکہ وہ اسے ناجائزامورمیں استعمال کریں گے۔

الاختیارلتعلیل المختار میں ہے:

"وعلى هذا الخلاف إذا آجر بيتا ليتخذه بيت نار أو بيعة أو كنيسة في السواد. لهما أنه أعانه على المعصية، وله أن العقد ورد على منفعة البيت حتى وجبت الأجرة بالتسليم وليس بمعصية، والمعصية فعل المستأجر وهو مختار في ذلك".

(كتاب الكراهية فصل في الاحتكار،ج:4،ص:162،ط:المطبعة الحلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز تعمير كنيسة...(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل".

(كتاب الكراهية،فصل في البيع،ج:6،ص:391،ط:سعيد)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

فلمی کام کرنے والوں کو ہوٹل کے کمرے کرایہ پر دینا:

"(الجواب)جانتے ہوئے ایسے بدکاروں کو کمرہ کرایہ پر دینا اعانت علی المعصیت کی وجہ سے درست نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم".

(کتاب الإجارۃ، ج9، ص292، ط؛دار  الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں