بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے علاقے میں جمعہ قائم کرنا جہاں روز مرہ کی تمام اشیاء نہیں ملتی ہیں


سوال

 ہمارا علاقہ جو کہ Attock شہر سے تقریباً 6 سے 7 Km دور ہے، اور علاقے کی تقریباً تمام ہی مساجد میں نماز جمعہ ادا ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارے کچھ ساتھیوں کا یہ کہنا ہے کہ فی الحال ہم یہاں پر نماز جمعہ ادا نہیں کر سکتے ہیں؛ کیوں کہ کپڑے وغیرہ کی خریداری کے لیے ہم کو علاقہ سے باہر جانا پڑتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ہم اپنی مسجد میں نماز جمعہ ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز کا صحیح ہونا مجتہدینِ کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے، حنفیہ کے نزدیک جوازِ  جمعہ کے لیے اس جگہ مصر ہونا یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو ۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔

البتہ اس کے باوجود عرصہ دراز سے جمعہ کی نماز قائم کی جارہی ہو اور جمعہ بند کرانے کی صورت میں لوگوں کے درمیان فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو اس جگہ بدستور جمعہ کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، جمعہ کی نماز ادا کرکے ظہر کی نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن شرائط مفقود ہونے کی صورت میں کسی نئی جگہ جمعہ کی نماز قائم نہیں کرنی چاہیے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح".  (ج: 2، ص: 260، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة". (ج: 1، ص: 537، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات". (ج: 2، ص: 138، ط: سعيد)

اعلاء السنن میں ہے:

"عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (ج: 8، ص1، إدارة القرآن)

کفایت المفتی میں ہے:

’’جاری شدہ جمعہ کو بند نہ کیا جائے،  جاری رکھا جائے، اور سب لوگوں کو لازم ہے کہ اتفاق سے رہیں،  آپس میں اختلاف کرنا بہت  برا ہے۔

قلت: وهذا وإن كان غير موافقة لما عليه الحنفية، ولكنه أشد مرافقة لمصالح الإسلامية الاجتماعية خصوصًا في هذا القطر، وفي هذا الزمان فإن أعداء الإسلام يظفرون بمقاصدهم المشومة في القرى لاتقام فيها الجمعة ويخيبون في مواضع إقامة الجمعة، والتوفيق من الله عز وجل وحفاظة الإسلام خير من الأصرار على تركها والمسألة مجتهد فيها‘‘.  (ج:3، ص: 205 ط: حقانيه)

وفيه أيضًا:

’’جو بستی بڑی ہو اور وہاں کم از کم دو بڑی مسجدیں ہوں یا وہاں ضروری سامان مل جاتا ہو، اس میں جمعہ پڑھانا چاہیے، ظہر احتیاطی کوئی چیز نہیں ہے، جمعہ پڑھیں یا ظہر پڑھیں دونوں پڑھنا صحیح نہیں ہے‘‘۔  (ج:3، ص:194، ط: حقانیہ)

فیض الباری میں ہے:

’’واعلم أن القرية والمصر من الأشياء العرفية التي لاتكاد تنضبط بحال وإن نص، ولهذا ترك الفقهاء المصر على العرف". (باب الجمعة ج:2، ص:229، ديوبند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں