بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آفیسر کے حکم پر کم آبادی والی بستی میں جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی یا نہیں؟


سوال

ضلع لکی مروت میں ایک بازار ہے، جس  کا نام منجیوالا چوک ہے،اس چوک سے چاروں طرف روڈ گئے ہیں ،مشرق  والا روڈپشاور گیاہے ،مغرب والاگنڈی چوک ،شمال والا سرائے نورنگ جب کہ جنوبی روڈ لکی شہر کی طرف گیا ہے،یہ بازار 400 سے زائد دکانوں پر مشتمل ہے،جس میں ضروریات زندگی کی تقریباًتمام اشیاءبآسانی دستیاب ہیں،نیز یہاں ایک پولیس چوکی ،ایک پٹوارخانہ بھی ہے ،بڑے علاقے کے لوگ اپنی  ضروریات پوری کرنے کے لیے اس بازار کی طرف رجوع کرتے ہیں ، یہ بازار روزانہ صبح سے شام تک لگتاہے ،اس میں دو مسجدیں پہلے سے بنی تھیں ،اب قریب میں ایک اور بڑی مسجدبن گئی ہے ،اس بازار سے مغرب کی جانب تقریباً478 فٹ کے فاصلے  پر ایک گاؤں بنام شیخ کلہ واقع ہے ،جس کی آبادی مردوزن بالغ ونابالغ 738 افراد پر مشتمل ہے،جب کہ اس بازار کے ساتھ متصل آبادی صرف پانچ یاچھ گھر ہیں، جن میں تقریباً60 سے 70 مردوزن رہائش پذیر ہیں ،اس بازار میں نہ کوئی سکول ہے اور نہ ہی کوئی دینی مدرسہ ،اس بازار کی اکثر دکانیں مغرب کی جانب 478فٹ کے فاصلے  پر واقع گاؤں کے باسیوں کی مملوکہ زمینوں میں بنی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ فقہ حنفی کے اعتبار سے مذکورہ علاقہ (منجیوالہ چوک) میں نمازِجمعہ وعیدین کی صحت کے لیے تعدادپوری نہیں ہے،لیکن اگر علاقہ کے ایسے  آفیسر جس کوحکومت کی جانب سے اس علاقے میں احکامات نافذکرنے  اور لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کرنے  کا مکمل اختیار دیاگیاہو مثلاًضلعی ناظم ،کمشنروڈپٹی کمشنروغیرہ کے  حکم سے نمازِجمعہ وعیدین جائز ہوگی یانہیں ؟اور اس حکم نامہ سے صرف منجیوالہ چوک پر جائز ہوگی  یا اس کے ساتھ جو478 فٹ کے  فاصلے  پر واقع شیخ کلہ میں بھی جائز ہوگی،نیز اس اذن اور حکم میں کوئی فرق ہوگا یانہیں ؟اور  مذکورہ آفیسر کی معزولی یا تبادلہ سے حکم میں کوئی تبدیلی آئے گی یانہیں؟ آپ حضرات رہنمائی فرمائیں تاکہ اتفاق سے  کسی ایک حکم پر عمل کیاجاسکے  اورافتراق وانتشار  پیدانہ ہو۔

جواب

 واضح رہے کہ کسی جگہ میں  جمعہ کے قیام  کے لیے فقہاء کرام نے چند شرائط بیان کی  ہیں ،ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ جگہ   شہر ،قصبہ یاقریہ کبیرہ  ہو ، قریۂ کبیرہ سے مراد یہ ہے ،کہ جس کی مجموعی آبادی کم ازکم اڑھائی تین ہزار افراد پر مشتمل  ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریات کی تمام چیزیں ملتی  ہوں ، علاج معالجہ کی سہولت میسر  ہو ،تو ایسی جگہ میں جمعہ  کی نماز قائم  کرنا جائز ہے، لہذا اگر کسی جگہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کےلیے جمیع شرائط(صحت) موجود ہوں تو وہاں جمعہ کی نماز  کوقائم کر نے کےلیے  موجودہ زمانہ میں  اس علاقہ کے آفیسر ،ضلعی ناظم ،کمشنر،ڈپٹی کمشنرکے حکم کرنے  کی ضرورت نہیں ہوتی ،یعنی اس کی اجازت کےبغیر بھی  جمعہ کا قیام درست ہوتاہے،لیکن اگر کسی جگہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کےلیے جمیع شرائط موجود  نہ ہوں یا کوئی ایک شرط موجود نہ ہو اور علاقہ کا آفیسر ،ضلعی ناظم ،کمشنریاڈپٹی کمشنراس جگہ میں جمعہ قائم کرنے کاحکم کرے تو اس کے حکم  کرنےسے اس جگہ کے لوگوں پر  نہ جمعہ کی نماز واجب ہوجاتی ہے  اور  نہ ان کے  لیے جمعہ کی نماز اداکرنا  صحیح  ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مقام "منجیوالہ چوک" سے  اگرچہ لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، لیکن اس میں ایسی کوئی آبادی نہیں ہے  کہ اس کی وجہ سے  اس جگہ کوقریہ کبیرہ یا قصبہ کہاجاسکے،اس لیے مذکورہ جگہ میں  اگر علاقہ کا آفیسر ،ضلعی ناظم ،کمشنریاڈپٹی کمشنراس جگہ میں جمعہ قائم کرنے کاحکم کرے تو اس کے حکم  کرنےسے اس جگہ کے لوگوں پر  نہ جمعہ کی نماز واجب ہوجاتی ہے اور نہ ان کے  لیے جمعہ  وعیدین کی نماز اداکرنا  صحیح  ہے،جس طرح کہ اگرعلاقہ کا آفیسر  یہ حکم کرے کہ جمعہ کی نمازکوظہر کے وقت سے پہلے ادا کیاجائے تو آفیسر کے  اس حکم سے  نہ لوگوں پر جمعہ کی نماز ظہر سے پہلےلازم ہوتی ہے اور نہ ان کے لیے جمعہ کی  نماز وقت سے  پہلے  اداکرنا صحیح ہے۔ 

جب  مذکورہ مقام "منجیوالہ چوک"والوں کے لیے آفیسر وغیرہ کے حکم نامہ سے جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہے تو قریبی گاؤں  شیخ کلہ والوں کے لیے  بھی جمعہ وعیدین کا قیام بھی صحیح نہیں ہے،آفیسر کے حکم سے شرعی حکم پر کوئی فرق  نہیں آئے گا، بلکہ شرعی حکم اپنے مقام پر برقرار رہے گا،اس طرح آفیسر کی معزولی یا تبادلہ سے بھی شرعی حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

المحيط البرهانی  میں ہے: 

"فنقول: للجمعة شرائط بعضها في نفس المصلي، وبعضها في غيره، أما الشرائط التي في غير المصلي فستة: أحدها: المصر و هذا مذهبنا ... و لنا: حديث علي رضي الله عنه موقوفا عليه، ومرفوعا إلى رسول الله عليه السلام «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وروى سراقة بن مالك عن رسول الله عليه السلام أنه قال: «لا جمعة ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، ولأن إقامة الجمعة، وهي ركعتان مقام الظهر وهي أربع ركعات أمر عرف شرعا بخلاف القياس فيراعى فيه جميع الشرائط التي اعتبرها الشرع، والشرع اعتبر المصر، فإن النبي عليه السلام أقامها بمدينة، ولم ينقل أنه أقامها في حوالي مدينة."

(‌‌الفصل الخامس والعشرون في صلاة الجمعة ، ج : 2 ،ص : 64 ، ط : دار الكتب العلمية)

النتف في الفتاوی میں ہے :

" واما صلاة الجمعة فانها لا تجوز الا بخمسة شرائطأحدها المصر الجامع والثاني أمر السلطان والثالث الوقت والرابع القوم والخامس الخطبة."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة  ، مطلب صلاة الجمعة ، ج :1 ،ص : 90 ، ط : دار الفرقان)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها ..."وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."

(كتاب الصلاة ، فصل بيان شرائط الجمعة ج : 1 : ص : 260،259  ، ط : دار الكتب العلمية)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"الصحيح في زماننا أن صاحب الشرط وهو الذي يسمى شحنة والوالي والقاضي لا يقيمون الجمعة؛ لأنهم لا يولون ذلك إلا إذا جعل ذلك في عهدهم وكتب في منشورهم، كذا في الغياثية، والي مصر مات فصلى بهم خليفة الميت أو صاحب الشرط أو القاضي جاز فإن لم يكن ثمة واحد منهم واجتمع الناس على رجل فصلى بهم جاز، كذا في السراجية."

 (الباب السادس عشر في صلاة الجمعة ، ج :1 ، ص : 145 ، ط : دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں