بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

افیون کی کاشت کاری کا حکم


سوال

افیون کی کاشت کاری کا کیا حکم ہے؟  ان صورتوں میں : (1) حکومت کی طرف سے ممانعت ہو،  (2) حکومت کی طرف سے  اجازت ہو، (3) حکومت کی طرف سے نہ اجازت ہو، نہ ممانعت۔

جواب

واضح رہے کہ     نشہ کی غرض سے   ”افیون “    استعمال کرنا حرام اور قابلِ سزا جرم  ہے،  البتہ ”افیون“  کا دوا میں استعمال   کرنا جائز ہے؛ اس لیے  اس کی کاشت کاری  جائز ہے۔

 حکومت کی طرف سے   افیون کی کاشت   کی  اجازت  ہونے کی صورت میں اس کی کاشت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور اگر افیون کی کاشت پر پابندی ہو تو اس  کی کاشت سے اجتناب  کرنا بہتر ہے تاکہ  قانونی گرفت کی صورت میں  عزت خطرے میں نہ پڑے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.

(قوله :ومفادة إلخ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعهما فافهم."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الأشربة (6/ 454)،ط. سعيد)

وفیہ أیضاً:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية."

(حاشية ابن عابدين: باب حد الشرب،  مطلب في البنج والأفيون والحشيشة (4/ 42)،ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں