ایک شخص نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں یہ الفاظ استعمال کہے کہ”چپ ہوجاؤ،چپ ہوجاؤ،چپ ہوجاؤ،اگر چپ نہ ہوئیں، تو طلاق ہے،طلاق ہے، طلاق ہے“ ان الفاظ کے سننے کے بعد بیوی خاموش ہوگئی، اب سوال یہ ہےکہ: کیا اس سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اگر طلاق واقع ہوئی ہے، تو کتنی طلاق واقع ہوئیں ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون شوہر کے الفاظ ”چپ ہوجاؤ،چپ ہوجاؤ،چپ ہوجاؤ،اگر چپ نہ ہوئی تو طلاق ہے،طلاق ہے، طلاق ہے“ سننے کے بعد اگر واقعۃ ًخاموش ہوگئی تھی،تو اس صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا."
(كتاب الطلاق، باب التعليق، ج: 3۔ ص: 355، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"(وشرط للحنث في) قوله (إن خرجت مثلا) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعله فورا) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفا ومدار الأيمان عليه، وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبو حنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد.
(قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث حموي عن البرجندي، ولا يشترط لعدم حنثه إذا خرجت بعد ساعة تغير تلك الهيئة الحاصلة مع إرادة الخروج، يشير إليه قول الفتح تهيأت للخروج، فحلف لا تخرج فإذا جلست ساعة ثم خرجت لا يحنث لأن قصده منعها من الخروج الذي تهيأت له فكأنه قال إن خرجت الساعة، وهذا إذا لم يكن له نية فإن نوى شيئا عمل به شرنبلالية."
(كتاب الأيمان، مطلب في يمين الفور، ج: 3، ص: 761۔762، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102473
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن