بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منہ بولی بیٹی کی ولدیت میں اپنا نام لکھوانا


سوال

میں نے اپنی سگے بھائی کی بیٹی کو گود لیا ہے،جو اب 3 سال سات ماہ کی ہوگئی ہے،اسے اب اسکول میں داخل کروانا ہے،مگر میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ میں اور میری زوجہ اپنا نام والد اور والدہ کے خانہ میں نہیں لکھواسکتے،کیا میں اپنا نام والدین کے خانہ میں لکھواسکتا ہوں؟

جواب

  شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے /بیٹی  کی حیثیت حقیقی اولاد  کی طرح نہیں ہے،  اور  کسی کو منہ بولا بیٹا /بیٹی بنانے سے  وہ حقیقی بیٹا /بیٹی نہیں بن جاتے اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانہ  میں  یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب  رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   [الأحزاب: 4، 5]"

"ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)"

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں  مذکورہ بچی  کی ولدیت کے خانے میں اس کے  حقیقی والد کا ہی نام لکھوانا ضروری ہے، ولدیت کے خانے میں  اپنا نام لکھنا جائز نہیں ہے،حقیقی والد کا نام لکھوانا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608102191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں