گھر میں بچوں کی گیند آئی والد صاحب نے ان کو واپس نہیں کی، مجھے پتہ نہیں تھا گراونڈ میں بڑے لڑکے کھیل رہے تھے مجھے لگا ان کی ہے میں نے ان کو جا کر دے دی ، انہوں نے ٹیپ اتار کر گیند کو دیکھا اور خود رکھ لی، پھر بعد میں ابو نے بتایا کہ وہ ان کی نہیں تھی سامنے جو بچے کھیل رہے تھے ان کی تھی، مجھے بچوں کا بھی نہیں پتہ کون تھے اور جن کو گیند دی تھی ان میں سے ایک دو کو ہی جانتا ہوں۔
اس بات کو ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے وہ گیند پتہ نہیں کہاں ہو گی اب میرے لیے کیا حکم ہے کیا میں گیند جتنی رقم صدقہ کر دوں ؟مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ گیند کتنے کی تھی۔
صورت مسئولہ میں سائل کے بیا ن کے مطابق اگر واقعتا غلطی اور لا علمی کی بناء پر سائل نے مذکورہ گیند اس کے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے دی ہے ،تو اس صورت میں اولا تو سائل پر لازم ہے کہ حتی الامکان کوشش کرکے مذکورہ گیند کے اصل مالک کو تلاش کرکے اس گیند کی رقم (جو مارکیٹ سے آسانی کے ساتھ معلوم ہوسکتی ہے) دے دے ،لیکن اگر تحقیق و تفتیش کے باوجود مذکورہ گیند کا مالک معلوم نہیں ہو پارہا ہو تو ایسی صورت میں اس گیند کی رقم معلوم کر کے اس کے مالک کی طرف سے صدقہ کردے۔
فتاوی شامی میں ہے:
'' (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)، هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافاً'
'' (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم.''
(ج:4، ص:283، کتاب اللقطۃ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100420
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن