بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر ماں یا بہن منع کرنے کے باوجود پردہ نہ کرے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کسی شخص کی ماں یا بہن  کہنےکے باوجودپردہ نہ کرے تو کیا وہ شخص گناہ گار ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ سب سے پہلے عورتیں خود  نامحرموں سے پردہ کرنے کی  مکلف ہیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتیں  تو گھرکے مرد حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں  سمجھائیں اور پردہ کا حکم دیں ،اگر وہ اس کے باوجود نہیں مانتیں اور بے پردگی سے باز نہیں آتیں،تو ان کےاس عمل سے  گھر کے مرد حضرات گناہ گار نہیں ہوں گے؛لہذا صورتِ مسئولہ میں منع کرنے کے باوجود اگر ماں،بہن  پردہ نہیں  کرتیں تو  اس سے وہ شخص گناہ گار نہیں ہوگا،البتہ وہ گاہے بہ گاہے ان کو نصیحت کرتا رہے اور پردہ کرنے کے فضائل ،نہ کرنے پر وعیدیں سناتا رہے،اسی طرح ان کے حق میں ہدایت کی دعا بھی جاری رکھے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ قُل لِّأَزۡوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلٰبِيبِهِنَّۚ ذٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِيْمًا."(الأحزاب الآية٥٩)

ترجمہ:" اے پیغمبر ! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجیے کہ (سرسے) نیچے کر لیا کریں اپنے تھوڑی سی اپنی چادر میں اس سے جلدی پہچان ہو جایا کر تی تو آزادی نہ دی جایا کرینگی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"معني ”یدنین علیهن“ یرخین علیهن یقال: اذا زلّ الثوب عن وجه المرأة أدلي ثوبك علي وجهك وعندي أن کل ذٰلك بیان لحاصل المعني والظاهر أن المراد ب”علیهن“ علي جمیع أجسادهن وفسر ذلك سعيد بن جبير بيسدلن عليهن، وعندي أن كل ذلك بيان لحاصل المعني، والظاهر أن المراد بعليهن علي جميع أجسادهن، وقيل: علي رؤوسهن أو علي وجوههن لأن الذي كان يبدو منهن في الجاهلية هو الوجه."

(ج: 11، ص: 264، ط: دارالکتب العلمیة)

تفسیر مظہری میں ہے:

" (يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ‌قُوا ‌أَنْفُسَكُمْ) بأداء الواجبات وترك المعاصي(وَأَهْلِيكُمْ) بالتعليم والتأديب والأمر بالمعروف والنهى عن المنكر."

(ج: 9، ص: 344، ط: مكتبة الرشيدية)

صحیح البخاری میں ہے: 

" أن عبد الله بن عمر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته، الإمام راع ومسئول عن رعيته، والرجل راع في أهله وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده ومسئول عن رعيته»."

(كتاب في الاستقراض، باب العبد راع في مال سيده ولا يعمل إلا بإذنه، ج: 3، ص: 120، رقم: 2409، ط: دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتمنع) المرأة الشابة (من كشف الوجه بين رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنة) كمسه وإن أمن الشهوة لأنه أغلظ."

(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب فی ستر العورۃ، ج: 1، ص: 406، ط: سعید)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144511102732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں