بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’اگر میں اپنی بیٹی کا رشتہ علی کو دوں تو میری بیوی کو طلاق‘‘ کہنے کا حکم


سوال

میں  نے قسم  کھائی  کہ اگر میں اپنی بیٹی کا رشتہ علی کو دوں تو میری بیوی کو طلاق۔ لیکن اب میں  اپنے گھر والوں کو کہتا ہوں  کہ اگر وہ دینا چاہتے ہیں تو خود سے دیں۔ اب اگر وہ رشتہ دیتے ہیں تو مجھ پر کیا حکم لاگو ہوگا؟ کیا میری بیوی کو طلاق ہوجائے گی؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں یہ کہنے ’’ اگر میں اپنی بیٹی کا رشتہ علی کو دوں تو میری بیوی کو طلاق‘‘ کے بعد اگر آپ خود اپنی بیٹی کا رشتہ ’’علی‘‘ کو دیں گے تو آپ کی بیوی پر ایک طلاقِ  رجعی واقع ہوجائے گی،  عدت کے دوران رجوع کا حق ہوگا۔ لیکن اگر آپ کے کہے بغیر آپ کے گھر والے آپ کی بیٹی کا رشتہ ’’علی‘‘ کو دے دیتے ہیں اور آپ اس پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں تو اس صورت میں شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1/ 420):

’’ إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق وكذا إذا قال: إذا أو متى وسواء خص مصرًا أو قبيلةً أو وقتًا أو لم يخص وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقًا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكًا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق، كذا في الكافي.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں