ایک آدمی نے ملازم کی کئی سالوں کی تنخواہیں ادا نہیں کیں جن کی مالیت 20 لاکھ بنتی ہے، کیا وہ اس رقم کی زکوۃ ادا کرے گا، اور یہ رقم کس کی ملک میں سمجھی جائے گی؟
اگر کسی شخص نے اپنے ملازمین کی کئی سالوں کی تنخواہ ادا نہ کی ہو اور وہ رقم اُس کے پاس موجود ہو تو اس کی زکوۃ مالک اور ملازم دونوں پر لازم نہ ہو گی، مالک پر اس لیے لازم نہیں ہو گی؛ کیوں کہ وہ رقم مالک کے ذمے واجب الادا ہے اور جتنی رقم واجب الادا ہوتی ہے وہ زکوۃ کے حساب کے وقت منہا کی جاتی ہے، اسی طرح اس کی زکوۃ ملازم پر بھی لازم نہیں ہو گی؛ کیوں کہ تنخواہ کی رقم جب تک وصول نہ ہوجائے وہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی، بلکہ ادارے کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہے اور یہ دینِ ضعیف ہے، اس کے وصول ہونے کے بعد اس رقم کی گزشتہ عرصے کی زکوۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوتا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول".
(1/ 175،کتاب الزکوۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن