1۔میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے،ان کے ورثا ء میں بیوہ،والد(میرے دادا جان)،تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،ترکہ میں گاڑی ،موٹر سائیکل اور ایک مکان ہے،اس مکان کے خریدنے میں والد صاحب کے ساتھ میری والدہ نے بھی پیسے ملائے تھے،اب ترکہ کی شرعی تقسیم کیسے ہوگی؟ کیا والد صاحب کےترکہ میں میرے دادا کا بھی حصہ ہوگا یا نہیں؟
2۔میرے دادا کا ایک مکان ہے،انہوں نے آدھا مکان اپنی چار بیٹیوں کے نام کردیا تھا اور آدھا اپنے دو بیٹوں(میرے والد مرحوم اورچچا) کے نام کردیا تھا،بیٹیوں نے تو حکومت کے قانون کے مطابق اپنے نام آدھا مکان کروالیا تھا،لیکن بیٹوں(میرے والد مرحوم اورچچا)نے اپنے نام نہیں کرایا تھا،اب کیا میرے والد کا اس مکان میں حصہ ہوگا؟
نوٹ:(1) مکان کی خریدار ی میں سائل کی والدہ نے جو رقم ملائی تھی اس میں قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی اور نہ بعداس رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا،اس وقت سائل کے والد صاحب کے پاس رقم کچھ کم تھی توسائل کی والدہ نے اپنے طرف سے رقم دے دی تھی۔
(2) سائل کے دادا نے اپنے دو بیٹے اور چار بیٹیوں کے نام جو مکان کیا ہے،اس مکان کونام کرنے کے وقت سے لے کراب تک وہ خوداس میں رہائش پذیرہیں۔
1۔صورت مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ مکان کی خریداری میں سائل کے والد مرحوم کو سائل کی والدہ نے بطور تعاون کے رقم دی تھی اور قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی ،اس لیے وہ رقم ان کی طرف سے تبرع و احسان تھی،اب وہ مکان مکمل طور پر سائل کے والد مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا،اور ان کے ورثاء کےدرمیان مشترک ہوگا،اور اس کو میراث کے ضابطۂ شرعی کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے،
باقی سائل کےمرحوم والد کے ترکہ کو تقسیم کرنے کاشرعی طریقہ یہ ہے سب سے پہلےترکہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں،اس کے بعد مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کیا جائے،اس کے بعد اگر مرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے اس کو نافذ کیا جائے،اس کےبعد باقی ترکہ (منقولہ /غیر منقولہ)کو 192 حصوں میں تقسیم کرکے24 حصے مرحوم کی بیوہ کو،32حصے والد کو،34،34 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 17 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:مرحوم والد:192/24
بیوہ | والد | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
3 | 4 | 17 | ||||
24 | 32 | 34 | 34 | 34 | 17 | 17 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5فیصد مرحوم کی بیوہ کو،16.66فیصد مرحوم کے والد کو،17.71فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 8.85فیصدہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
2ــ۔واضح رہےکہ کوئی چیز صرف نام کرنے سے کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور اس طرح محض نام کرنے سےشرعاً ہبہ(گفٹ دینا) درست نہیں ہوتا، بلکہ ہبہ (گفٹ) کے مکمل اور درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہِب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور اپنا قبضہ وتصرف مکمل طور پر ختم کردے، اور اسی طرح چند افراد کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ایک کا حصہ متعین کرکے باقاعدہ تقسیم کرکےان کو دیا جائے، ورنہ تقسیم کیے بغیر مشترکہ ہبہ درست نہیں ہوتا، لہذا سائل کے دادا نے اپنے جس مکان کو تقسیم کیے بغیر اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے صرف نام کیا تھا اور خود بھی اس مکان میں رہائش پذیر ہیں تو اس مکان کا ہبہ درست نہیں ہوا، وہ مکان اب بھی سائل کے دادا ہی کی ملکیت ہے،اس مکان میں سائل کےو الد مرحوم کا کوئی حصہ نہیں۔
العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب المداینات، ج:2، ص:226، ط:دارالمعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبة."
(کتاب الھبة، ج:5، ص:689، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي ويشترط أن يكون الموهوب مقسوما ومفرزا وقت القبض لا وقت الهبة...ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."
(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4،ص:377، ط: دار الفکر)
الفتاوى التاتارخانیة میں ہے:
"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
(کتاب الھبة، الفصل الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، نوع منہ، ج:14، ص:431، ط:زکریا)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102763
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن