بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر میں نے تجھ سے بات کی تو میں دائرہ اسلام سے خارج کہنے کا حکم


سوال

دو دوست آپس میں مذاق کرتے کرتے لڑائی پر اتر آئے اور ان میں سے ایک نے غصے میں کہہ دیا کہ :"میں نے آئندہ تجھ سے کبھی بات کی تو میں دین اسلام سے خارج ہوجاؤں گا"،  اب اگر وہ آپس میں بات کرنا چاہیں تو اس بارے میں کیا حکم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملہ چونکہ مستقبل کے لیے ہے، لہٰذا  اگر اس شخص نے مذکورہ الفاظ یہ جانتے ہوۓ کہے ہیں کہ یہ محض قسم ہے اور وہ اس سے کافرنہیں ہوگا تو مذکورہ الفاظ  سے قسم منعقد ہوگئی ہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ یہ شخص جیسے ہی اپنے مذکورہ دوست سے بات کرے گا،  تو   قسم ٹوٹ جائے گی،  جس کا کفارہ دینا لازم ہوگا،اور یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا ،البتہ اگر وہ اس بات کو جانتا تھا کہ بات کرنے سے وہ کافر ہو جائے گا ، یا وہ جاہل ہو کہ اس نے اسے قسم سمجھ کر نہیں کہا بلکہ یوں ہی کہہ دیا تو مذکورہ بات کہتے ہی وہ دین اسلام سے خارج ہو جاۓ گا، اس کے لیےتجدید ایمان اور تجدید نکاح لازم ہے،تاہم اس پر لازم ہے کہ آئندہ کے لیے اس قسم کے الفاظ ادا کرنے سے گریز  کرے۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر "جو "دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے، اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا،  اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تودوبارہ تین روزے رکھے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾"(سورة المائدة: ٨٩)

بہشتی زیور میں ہے:

" یوں اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہوکر  مروں، مرتے وقت ایمان نہ نصیب  ہو، بے ایمان ہوجاؤں، یا اس طرح کہا کہ اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں، تو قسم ہوگئی، اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا، اور ایمان نہ جاوے گا۔"

( قسم کھانے کا بیان، مسئلہ نمبر5، ج:3، ص:242، ط: دار الاشاعت)

فتاوی خانیہ میں ہے:

"رجل قال: هو يهودي او نصراني، أو بريء من الله أو من الأسلام، إن فعلت كذا، كان يمينًا، فإن باشر الشرط هل يصير كافرًا، اختلفوا فيه. و كذا لو حلف علي أمر ماض بأن قال: هو يهودي أو نصراني أو بريء من الله أو من الإسلام إن كنت فعلت كذا أمس، و قد كان فعل فإن كان ناسيًا، لايعلم أنه كان فعل أو لم يفعل لايصير كافرًا عند الكل، وإن كان يعلم أنه قد فعل ذلك، هل يصير كافرًا؟ قال أكثر المشايخ: إنه يصير كافرًا. و قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله تعالي: الأصح أنه إن كان الرجل يعرف هذا يمينًا، و لايكفر به، لايكون كافرًا لا في الماضي ولا في المستقبل. و إن كان جاهلًا أو كان عنده أنه كفر ففي الماضي يكفر في الحال، و في المستقبل إذا باشر الشرط يصير كافرًا، لانه لما باشر الشرط و عنده أنه يكفر فقد رضي بالكفر، و الرضا بالكفر كفر."

(خانية على هامش الهندية، باب ما يكون كفرا من المسلم و ما لا يكون، ج:3، ص:573، ط: رشيدية)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144607101738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں