بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دل میں یہ ارادہ کرنا اگر میں نے مشت زنی کی تو روزہ رکھوں گا زبان سے کچھ نہیں کہا تو کیا حکم ہے؟


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص مشت زنی کے گناہ میں مبتلا تھا، پھراس کی منگنی ہوگئی تو انہوں نے اپنےساتھ یہ طے کیا کہ شادی تک اگر میں نے  یہ گناہ کیا تو میں ایک روزہ رکھو ں گا، اس نے یہ الفاظ منہ سے ادا نہیں کیےلیکن دل میں ارادہ یہی تھا کہ ہر مرتبہ جب ہو جائے تو ایک روزہ رکھوں گا، اس کے باوجود یہ گناہ اس سے نہیں چُھوٹا، وہ شخص جب بھی گناہ کرتا تو روزہ رکھتا، کئی عرصہ اس طرح ہوا، اب تقریبا ایک سال ہوگیا ہےاس نے روزے رکھنا چھوڑدیے ہیں اور گناہ نہیں چھوٹا،  اب اس میں میرے کچھ سوالات ہیں، آ  پ مہربانی فرما کر ان کے جوابات دیں۔

1:اب جو روزےاس پر لازم ہیں اس کی تعداد اس کو پتہ نہیں ہے، یہ کتنے روزے رکھے گا ؟

2:اب یہ اس بات کو ختم کرنا چاہتا  ہے، جواس نے اپنے ساتھ طے کیا ہے کہ اگر مجھ سے یہ گناہ ہوگیا تو میں ایک روزہ رکھوں گا اس کا کیا طریقہ ہے ؟

3:اس نے اس گناہ کو چھوڑنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن نہیں چھوٹ رہا ، کیا یہ گناہ گار ہو گا چھوڑنے کی اتنی کوشش کے باوجود جو اس سے گناہ ہورہا  ہے۔

 نوٹ! اس کے چھوڑنےکے لیے کوئی وظیفہ بتائیں یا طریقہ بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  نذر   منعقد ہونے کےلیے زبان سےنذر کےالفاظ ادا  کرنا لازمی ہے، جب تک  زبان سے نذر کے الفاظ ادا نہ کیے جائیں تو  صرف   دل  میں ارادہ کرنے  سے   نذرمنعقد نہیں ہوگی، لہذا  صورت مسئولہ میں کسی شخص کا  صرف دل میں یہ  ارادہ کرنا کہ اگر میں نے شادی تک مشت زنی کی تو روزہ رکھوں گا اس سے  مذکورہ شخص پر روزہ لازم نہیں ہوگا، البتہ اس صورت میں گناہ کا صدور ہوگیا تو توبہ و استغفار کرلے ، پہلی بار گناہ کے بعد یکے  بعد دیگرے گناہ کرنے کی بنا  پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار لازم ہوگا۔

3:مذکورہ گناہ  کرنے سے بندہ  سخت گناہ گارہو جاتا ہے "مشت زنی" سے بچنے کے لیے  اس کے  اسباب مثلاً  غلط خیالات ،بری صحبت ،تنہائی میں رہنا،انٹرنیٹ کا غلط استعمال، بدنظری وغیرہ سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، اگر انٹرنیٹ کا استعمال ناگزیر نہیں ہے تو اس کا استعمال بالکل ہی ترک کردیجیے،  اور  یہ خیال بار بار اپنے ذہن میں  لائیں کہ اللہ تعالی مجھے ہر حال میں دیکھ رہے ہیں ،  اس کے  ساتھ  ساتھ یہ بھی تصور کریں  کہ جب والدین یا کسی بڑے کے سامنے ایسی حرکت  کرنے کا تصور نہیں کرسکتا تو ربِ کائنات کے سامنے جو میری ایک ایک حرکت سے باخبر ہے اور اس پر گرفت کرسکتا ہے تو یہ حرکت کیونکر کروں؟، نیز  کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کیجیے،کثرت سے  روزے رکھنے کا اہتمام کریں ، کثرت سے اس دعا  کا ورد کیا جائے:  "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدٰى وَالتُّقٰى وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی"اورساتھ ساتھ   سید الاستغفار پڑھتے رہیں۔

سید الاستغفار یہ ہے: 

"اللَّهُمَّ أنْتَ ربِّى لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خلَقْتَنِى وَأنَا عَبْدُكَ، وَأنَا عَلَى عَهْدِك وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أعُوذُ بكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأبُوءُ لَكَ بنِعْمَتِكَ عَلىَّ، وَأعْتَرِفُ بدنُوبِى فَاغْفِرْ لى ذُنُوبى، إنَّهُ لايَغفرُ الذنوب إِلَّا أنْتَ."

ترجمہ: اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں جس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ "

(جمع الجوامع، الہمزۃ مع الواو، ج:3، ص:294، ط:جمہوریہ مصر)

اور ہر نماز کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر  سات  مرتبہ  "یاقَوِيُّ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ قَوِّنِيْ وَقَلْبِيْ"پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ اس قبیح فعل سے نجات مل جائےگی۔

البحرالرائق میں ہے:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها، وشرطها العقل والبلوغ".

( کتاب الأیمان،ج:4، ص:300،ط:دار الکتاب الإسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے :

"( فصل ): وأما ركن اليمين بالله تعالى فهو اللفظ الذي يستعمل في اليمين بالله تعالى".

( ‌‌[كتاب الأيمان ،باب في أنواع اليمين،ج: 6،ص:210،ط:دار الکتب العلمیه)

"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق"میں ہے:

"والاستمناء بالكف على ما قاله بعضهم، وعامتهم على أنه يفسد، ولايحل له إن قصد به قضاء الشهوة؛ لقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: 6] إلى أن قال {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} [المؤمنون: 7] أي الظالمون المتجاوزون فلم يبح الاستمتاع إلا بهما، فيحرم الاستمتاع بالكف، وقال ابن جريج: سألت عنه عطاء، فقال: مكروه، سمعت قومًا يحشرون وأيديهم حبالى، فأظن أنهم هم هؤلاء. وقال سعيد بن جبير: عذّب الله أمَّةً كانوا يعبثون بمذاكيرهم"

 ( کتاب الصوم ،باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ ،ج:1، ص: 323،ط: دارالکتاب الاسلامی) 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں