میری شادی ایک شخص سے ہوئی ،لیکن پانچ سال اولاد نہیں ہوئی تو انھوں نے طلاق دے دی،اس کے بعد میں عمرے پر گئی تھی اورعمرےکے بعد مجھے پاکستان جانا تھا ،اب جس سے میری شادی ہوئی ہے وہ میری دوست کے بھائی ہیں،میری اس دوست نے ہی مجھے شادی کے لیے قائل کیا تھا،کیوں کہ میں پہلے سے مسلمان نہیں تھی اور دوسری شادی کیسی کرنی ہے اس بارےمیں معلومات اور وسائل بھی نہیں تھے، اس لیے اس وقت یہی حل تھا، اور میں یہاں دبئی میں رہنا نہیں چاہتی تھی، اور گھریلو زندگی گزارنا چاہتی تھی، اس لیے میں نے اسے قبول کیا، مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ آدمی نیک ہے ،اور پانچ وقت کا نمازی ہے ،اس لیے بطور ایک نو مسلم میرے لیے یہ بڑی بات تھی کہ جو بندہ نمازی ہے وہ اپنی ساری ذمہ داری جانتا ہوگا، یہی سوچ کر میں نے شادی کرلی اور اپنے تمام معاملات کو دبئی سے ختم کیا اور آٹھ سال میں جو پیسہ کمایا تھا اور زیور وغیرہ سب لےکر چلی گئی، اس کے بعد میرے دو بچے ہوئے ایک2019 میں اور ایک 2021 میں، مگر میرے سسرال والوں نے میری کوئی مالی معاونت نہیں کی۔
اور اس نے بچوں کی پیدائش کے اخراجات بھی میرے ہی پیسوں سے کئے،اور بچوں کی تمام مالی ذمہ داری میر ی ہی تھی، کیوں کہ میرے پاس اس وقت پیسے تھے، اس لیے میں نے درگزر کیا اس امید پر کہ شاید بچوں کی وجہ سے یہ بندہ ذمہ دار ہو جائے گا، لیکن یہ شاید میری غلطی تھی، جب میرے پاس تمام رقم اور جمع پونجی ختم ہو گئی تو جب میں بالکل صفر پر آگئی تو میں نے سوچا کہ میں واپس دبئی چلی جاتی ہوں،بچے چھوٹے تھے تو ان کو بھی ساتھ لانا پڑا اور ان کےاخراجات بھی اٹھانے پڑے ۔
اب یہاں آئے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے، مگر یہ شخص گھر پر ہی رہتا ہے، اور کوئی کام کرنے کا ارادہ نہیں ہے،اس لیے تمام اخراجات کا انحصار مجھ پر ہی ہے، اورجب سے ساری چیزیں میرے سامنے آنا شروع ہوئیں تب سے میرا دل بہت برا ہو گیا ہے، کیوں کہ ان کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ہے،کہ یہاں ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے، اور میں مسلسل نوکری کر رہی ہوں،لیکن اب یہ بندہ دل سے بالکل ہی اتر گیا ہے، اورساتھ میں شک کرتا ہے، ظاہر سی بات ہے کیوں کہ میں ایک کمپنی میں ہوں جو کہ اطالوی کمپنی ہے،اور میرے علاوہ وہاں سب مرد کام کرتے ہیں،ہاں اگر کوئی شوہر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہو تو سوال کرنا بنتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے میرے لئے بڑا مشکل ہے کہ میں اس طرح اس رشتے کو جاری رکھ سکوں، میں چاہتی ہوں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا میں حق بجانب ہوں یا میں کوئی غلط فیصلہ کر رہی ہوں کیونکہ بچے تو میرے ہی خرچے پر پل رہے ہیں اور وہ بچوں پر اپنا حق جتاتا ہے کہ یہ میرے بچے ہیں ،اور مجھےسے اپنے بچوں ملنےبھی نہیں دیتےہیں،اوران سے قریب ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے ،اور میں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت بھی نہیں گزار سکتی، کیوں کہ اس نے بچوں کو اس طرح رکھا ہے کہ میرے بچے میری طرف رجحان ہی نہیں رکھتے۔
شرعی طورپراس کاکیاحل ہے؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں شوہر کے ذمہ لازم ہے کہ وہ بیوی کا مہر اورنان ونفقہ (کھانا،پینا،لباس،پوشاک اوررہائش)اداکرے،حسن معاشرت قائم کرے، قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بیویوں کے حقوق بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، شوہر پر بیوی کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
" وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا."
ترجمہ:” اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے“۔
[النساء: 19]
مشکاۃ شریف میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم. رواه الترمذي."
(باب عشرة النساء، ج:2، ص:282، ط: قدیمي)
ترجمہ: ”رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے“۔
(مظاہر حق،ج:3، ص:370، ط: دارالاشاعت)
وفيه ايضاً:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."
(باب عشرة النساء، ج:2، ص:281، ط: قدیمي)
ترجمہ:”رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں“۔
(مظاہر حق، ج:3، ص:365، ط: دارالاشاعت)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"للزوجة حقوق مالية وهي المهر والنفقة، وحقوق غير مالية: وهي إحسان العشرة والمعاملة الطيبة، والعدل۔۔۔إعفاف الزوجة۔۔۔المعاشرة بالمعروف۔۔۔العدل بين النسوة في المبيت والنفقة."
(الباب الأول: الزّواج وآثاره، المبحث الأول ـ حقوق الزوجة، ج:9، ص:6842، ط:دار الفكر)
لہذاشوہرکوچاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کااحساس کرے،بیوی سےنوکری کرانےکےبجائےخودروزگارحاصل کرنےکی کوشش کرے،اوربیوی بچوں کےنان نفقہ کی شرعی ذمہ داری نبھائے،تام اگرشوہراپنی ذمہ داری پوری نہ کرےاورآپ کےلئے مزیداس کےساتھ نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہےتوآپ اسےطلاق دینےپرآمادہ کریں ،اگروہ طلاق دینے پرآمادہ نہ ہوتومہرکی معافی یاواپسی کی شرط پراس سے خلع کامطالبہ کریں،ملحوظ رہے کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، لہذا اس کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ حاصل کردہ خلع شرعًا معتبر نہیں،الغرض نکاح ختم کرنےکےلئے باہمی افہام وتفہیم سے معاملہ حل کرنےکی کوشش کی جائے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع."
(باب ا لخلع ج3، ص441، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101560
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن