میری بیوی سے بحث کے دوران میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق فلاں اچھی لڑکی نہیں ہے ، براہ کرم دور رہیں، جواب میں میں نے کہا: (دل میں میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں نے اسے صرف مثال کے طور پر جواب دیا) فلاں بھی اچھا آدمی نہیں، (میرے خیال کے مطابق) اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی تو سب ختم۔ (اس تبصرے کے دوران ایک مثال کے علاوہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا)۔ براہ کرم مذکورہ صورتِ حال کے مطابق رہنمائی فرمائیں کہ کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگرواقعتًا سائل کے مذکورہ الفاظ کہ "اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی تو سب ختم" سے طلاق کی نیت نہیں تھی تو سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح برقرار ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و في الفتاوى: لم يبق بيني وبينك عمل و نوى يقع، كذا في العتابية."
(کتاب الطلاق ، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق جلد ۱ ص: ۳۷۶ ط: دارالفکر)
البحر الرائق میں ہے:
"و في البزازية: طلبت منه الطلاق فقال: لم يبق بيني و بينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح و ينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ يقع."
(کتاب الطلاق ، باب الکنایات فی الطلاق جلد ۳ ص: ۳۲۸ ط: دارالکتاب الاسلامي)
فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:
ـ"(its all over) یعنی سب کچھ ختم ، ہمارا ٓپس میں تعلق ختم ہوگیا ، دارصل یہ الفاظ کنایہ میں سے ہے ، اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا ہے تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ، ورنہ بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوگی۔"
(کنایات طلاق کا بیان جلد ۴ ص:۱۳۲ ط:زم زم پبلشرز)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100334
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن