میرے والد صاحب جب میرے حالات اچھے نہ تھے مجھے اورمیرے بیوی بچوں کوچھوڑکرکہیں چلے گئےتھے،اب جب کہ حالات اچھے ہوئے توہماے ساتھ رہنےلگے ،میں ان کی خدمت کرتاہوں ،میری بیوی کہہ رہی ہے کہ انہوں نے توہمیں برے وقت میں چھوڑاتھا،اس سے مجھے پریشانی ہورہی ہے ،میں اپنی بیوی کوکیا جواب دوں؟
قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیاہے،اوران کی خدمت واطاعت گزاری کوجنت میں داخلے کاسبب بتایا گیاہے، اورنافرمانی کوجہنم کامستحق بننے کاسبب بتایا گیا ہے، اور والدین کےساتھ بدسلوکی پرشدیدوعیدیں ارشادفرمائی گئی ہیں، اگربالفرض والدکی طرف سے اولاد سے بدسلوکی بھی ہوجائے تب بھی بدلے میں ان سے بدسلوکی کرنےکی اجازت نہیں دی گئی، لہذا آپ کی بیوی کی بات شرعاًواخلاقاًدرست نہیں ہے،اسے چاہیے کہ سسرکااپنے حقیقی والدکی طرح احترام کرے،بیوی کےکہنے پرآپ کا والد سے بدسلوکی کرنابھی جائزنہیں ہوسکتا، بلکہ بہت سخت گناہ ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿الإسراء: ٢٣﴾وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ."﴿الإسراء: ٢٤﴾
ترجمہ:”اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو،اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔“
معارف القرآن میں ہے:
"امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اوران کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کواپنی عبادت کے ساتھ ملاکرواجب فرمایا ہے، جیساکہ سورۂ لقمان میں اپنے شکرکے ساتھ والدین کےشکرکوملاکرلازم فرمایاہے، لہذااس سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعدوالدین کی اطاعت سب سے اہم اوراللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کاشکرگزارہوناواجب ہے۔
صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پرشاہدہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺسے ایک شخص نے سوال کیاکہ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے“ آپ ﷺنےارشادفرمایاکہ”نمازاپنے وقت (مستحب)میں، اس نے پھردریافت کیا کہ اس بعدکون ساعمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ توآپﷺنےفرمایا”والدین کے ساتھ اچھاسلوک “۔
ترمذی میں حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ ”باپ جنت کادرمیانی دروازہ ہے اب تمہیں اختیارہے کہ اس کی حفاظت کرویاضائع کردو“اورجامع ترمذی میں ایک اورجگہ حضرت عبداللہ ابن عمرکی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ”اللہ کی رضا،باپ کی رضامیں ہےاوراللہ کی نارضی باپ کی نارضی میں“۔
والدین کی خدمت واطاعت والدین ہونے کے حیثیت سے کسی زمانے اورکسی عمرکے ساتھ مقیدنہیں ہرحال اورہرعمرمیں والدین کے ساتھ اچھاسلوک واجب ہے، لیکن واجبات وفرائض کی ادائیگی میں جوحالات عادۃًرکاوٹ بناکرتےہیں ان حالات میں قرآن حکیم کاعام اسلوب یہ ہے کہ احکام پرعمل کوآسان کرنے کےلئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتاہے اورایسے حالات میں تعمیل احکام کی پابندی کی مزیدتاکیدبھی۔
(معارف القرآن ازمفتی شفیعؒ، ص:5، ص:465، ط:مکتبہ معارف القرآن)
سنن ترمذی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میںہے."
(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، ج:4، ص:310، ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي)
وفیه ایضاً:
"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه."
ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔"
(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، ج:4، ص:311، ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"
( کتاب الآداب،باب البر والصلة،الفصل الثالث:ج:3،ص:1382،ط:المکتب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن