بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اگرمیاں بیوی کانباہ ممکن نہ ہو


سوال

میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں، بیوی کی شکایت ہے کہ شوہر کے گھر میں ذہنی دباؤ اور تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ شوہر ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالتا ہے، تھکن کے باوجود اسے اپنی بہن کے گھر صفائی پر مجبور کرتا ہے اور کام مکمل نہ ہونے پر سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔ دوسری طرف، شوہر کا کہنا ہے کہ بیوی بروقت حکم کی تعمیل نہیں کرتی اور منفی رویہ اپناتی ہے، دونوں تقریباً ایک سال سے علیحدہ زندگی گزار رہے ہیں اور صلح کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں،بیوی کسی بھی صورت میں شوہر کے ساتھ سسرال جانے پر راضی نہیں، جب کہ شوہر بھی ازدواجی تعلق برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، لڑکی کے والدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم ہے، جس کے باعث وہ اپنی بیٹی کے خلع کے خواہش مند ہیں۔شرعی استدعا:چوں کہ بیوی ازدواجی زندگی میں ذہنی اذیت اور تکلیف محسوس کر رہی ہے، اور شوہر اصلاح پر آمادہ نہیں، تو ایسی صورت میں:

  1. کیا شریعت کی رو سے بیوی خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے؟

  2. اگر شوہر خلع دینے سے انکار کرے تو کیا شرعی طور پر قاضی یا دار القضاء بیوی کے حق میں یک طرفہ خلع (فسخِ نکاح) کا فیصلہ کر سکتا ہے؟

  3. اگر خلع ثابت ہو جائے تو کیا بیوی پر مہر یا کسی اور مالی معاوضے کی واپسی واجب ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اولا ً ہر ایک کے حقوق کا تعین کریں،  پھر  اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی سے قاصر ہوں تو شریعت نے شوہر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنے کی بجائے اور اسے لٹکانے کے بجائے اسے طلاق دے دے، اگر شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو بیوی کو اختیار ہے کہ وہ مہر معاف کر کے یا واپس کر کے شوہر کو خلع پر راضی کرے،  خلع کے معتبر ہونے کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔

اگر شوہر نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ ہی خلع قبول کرے، بلکہ بیوی کو معلق رکھے، اس پر ظلم  مار پیٹ کا مرتکب ہو، تو یہ شریعت میں سخت گناہ ہے، ایسی صورت میں، بیوی تنسیخِ نکاح کے لیے مسلمان قاضی کی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے، تاہم اسے معتبر گواہوں کے ذریعے شوہر کے ظلم کو ثابت کرنا ہوگا، تمام ثبوت فراہم کرنے کے بعد، اگر عدالت تنسیخِ نکاح کا فیصلہ کر دے تو شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی نکاح فسخ ہو جائے گا، اور یہ فیصلہ شرعاً معتبر ہوگا،  جہاں مسلمان قاضی موجود نہ ہو، وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت (کم از کم تین افراد) شرعی شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے نکاح فسخ کر سکتی ہے،  تاہم، غیر مسلم قاضی یا کسی غیر مسلم حکومت کے عہدے دار کا نکاح فسخ کرنے کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہوگا۔

اگر شوہر خلع پر راضی ہو جائے تو  بیوی پر مہر یا کوئی اور مالی معاوضہ (جوبھی طے ہواہے)واپس کرنا ہوگا،  تاہم، اگر نکاح فسخ قاضی یا شرعی عدالت کے فیصلے سے ہو، اور بیوی نے شوہر کے ظلم یا حقوق کی عدم ادائیگی کو ثابت کر دیا ہو، تو ایسی صورت میں بیوی پر مہر یا کسی اور مالی معاوضے کی واپسی لازم نہیں ہوگی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [البقرة:229]          

الحیلۃ الناجزۃ میں ہے:

’’اور جس جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو یا مسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کا قانونا اختیار نہ ہو یا مسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں فقہ حنفی کے مطابق تو عورت کی علیحدگی کے لیے بغیر خاوند کی طلاق وغیرہ کے کوئی صورت نہیں اور حتی الوسع لازم ہے کہ خلع وغیرہ کی کوشش کرے۔ 

لیکن اگر خاوند کسی طرح نہ مانے یا بوجہ مجنون یا لاپتہ ہونے کے اس سے خلع وغیرہ ممکن نہ ہو اور عورت کو صبر کی ہمت نہ ہو تو مجبورا مذہب مالکیہ کے مطابق دین دار مسلمانوں کی پنچایت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے، کیونکہ مالکیہ کے مذہب میں قاضی وغیرہ ہونے کی حالت میں یہ صورت بھی جائز ہے کہ محلہ کے دین دار مسلمانوں کی ایک جماعت جس کا عدد کم از کم تین ہو پنچایت کرے اور واقعہ کی تحقیق کر کے شریعت کے موافق حکم کردے تو بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔‘‘

(ص: ۵۱، ط: امارت شرعیہ ہند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں