میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ایک مکان تعمیر کروایا تھا۔ اس مکان کی تعمیر کے لیے میرے والد صاحب نے میری بیوی سے سونا (گولڈ) قرض کے طور پر لیا تھا اور کہا تھا: "بیٹا، میں یہ سونا قرض کے طور پر لے رہا ہوں اور بعد میں واپس لوٹا دوں گا۔" اسی طرح، کچھ لوگوں سے نقد رقم کی صورت میں بھی قرض لیا تھا۔ہم نے اس مکان میں 10 سال گزارے، لیکن اس دوران میرے والد صاحب یہ قرض ادا نہ کر سکے، اور ہمیں مجبوراً مکان فروخت کرنا پڑا۔ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے باقی قرض خواہوں کا قرض تو ادا کر دیا گیا، لیکن میری بیوی کا قرض بدستور والد صاحب کے ذمے باقی رہا۔بعد ازاں، میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا، اور وہ میراث میں ایک دکان اور ایک فلیٹ چھوڑ گئے۔ لیکن اب میری والدہ اور میری تین بہنیں میری بیوی کا قرض واپس کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔براہ کرم اس معاملے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں، اگر واقعی سائل کی بیوی کا سائل کے والد کے ذمہ قرض تھا اور وہ زندگی میں ادا نہ کر سکا، اور مرحوم (والد) نے ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے، تو شرعاً مرحوم کے حقوقِ متقدمہ، یعنی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمے سائل کی بیوی کا جو قرض تھا، اسے باقی ماندہ ترکہ سے ادا کیا جائے گا۔ سائل کی والدہ اور بہنوں کا مذکورہ قرض ترکہ سے منہا کرنے سے انکار کرنا جائز نہیں۔
سراجی میں ہے:
"تتعلق بترکة المیت حقوق أربعة مرتبة: الاول: یبدأ بتکفینه وتجھیزه من غیر تبذیر ولا تقتیر، ثم تقضی دیونه من جمیع ما بقی من ماله".
(الحقوق المتقدمة بترکة المیت،ص:5،ط: البشریٰ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102215
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن