بخاری شریف میں ایک رویت ہے:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:(إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر، قبل أن تغرب الشمس، فليتم صلاته، وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح، قبل أن تطلع الشمس، فليتم صلاته).
سوال :اس حدیث میں فجر کی نماز کےمتعلق جوبات ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟
واضح رہے کہ جو نماز کامل وقت میں فرض ہوتی ہے اس کو ناقص وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے اور جو نماز ناقص وقت میں فرض ہوتی ہے اس کو ناقص وقت میں ادا کرنا جائز ہوتا ہے اور فجر کا آخری وقت بھی کامل ہے اور عصر کا آخری وقت ناقص ہے اس لیے دونوں کے احکام میں فرق ہے ۔
صورت مسئولہ میں چوں کہ وقت فجر میں کوئی ناقص نہیں ،بلکہ پورا وقت کامل ہے ،لہذا جوشخص آخری وقت میں نماز شروع کررہاہے، اس پر وجوب کا مل ہوا ، لیکن طلوع شمس کی وجہ سے ادائیگی ناقص ہوئی اور وجوب کامل کی صورت میں اگر ادائیگی ناقص ہوتو وہ مفسد صلاۃ ہے اس کے برخلاف وقت عصر میں اصفرار سے لے کر غروب تک کا وقت ناقص ہے،لہذا جو شخص عصر کے آخری وقت میں نماز شروع کررہا ہے، اس پر وجوب ناقص ہوا ادائیگی بھی ناقص ہوئی اور نماز فاسد نہ ہوئی ۔
باقی سائل نے جس روایت کا ذکر کیا ہے ،یہ صحیح بخاری میں موجود ہے ، "عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس، فقد أدرك الصبح۔۔۔۔۔۔الخ"، لیکن واضح رہے کہ کتب احادیث میں ، مذکورہ روایت کے تعارض میں آنے والی احادیث (جن میں تین اوقات میں نماز پڑھنے کی صریح ممانعت آئی ہے،جس میں سے ایک وقت طلوع آفتاب کا بھی ہے)بھی موجود ہے،اس لیے فقہاء کرام میں سے بعض کے نزدیک اس وقت نماز جائز ہے،لیکن احناف کے نزدیک جن احادیث میں نہی وارد ہوئی ہے،وہ راجح ہیں، احناف کے نزدیک ان اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز شروع کرے، اور درمیان میں سورج طلوع ہوجائے، تو حنفیہ کے اصول کے مطابق (جیساکہ متقدمین سے منقول ہے) نماز باطل ہوجائے گی۔
البتہ متاخرین احناف میں سے قریب زمانے کے بعض فقہاءِ کرام (جن میں علامہ شامی رحمہ اللہ اور سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ بھی شامل ہیں) نے عوام الناس کے دینی مسائل سے جہل اور ناواقفیت کی وجہ سے اس وقت نماز ادا کرنے والے عامی شخص کو نماز پڑھنے سے روکنے سے منع کیا ہے کہ مبادا مسئلہ سمجھنے کے بجائے وہ نماز ہی ترک نہ کردے، اس لیے اگر کوئی عامی شخص ایسے وقت نماز شروع کردے کہ فجر کا وقت ختم ہونے والا ہو، اور غالب یہ ہو کہ نماز کے دوران فجر کا وقت ختم ہوجائے گا، تو اسے روکنا نہیں چاہیے، نرمی کے ساتھ معقول انداز میں مسئلہ سمجھادینا چاہیے۔
صحيح البخاری میں ہے:
عن أبيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تبرز، وإذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تغيب، ولا تحينوا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها، فإنها تطلع بين قرني شيطان، أو الشيطان)
ترجمہ : ’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! جب آفتاب کا کنارہ طلوع ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ وہ پورا طلوع ہوجائے اور جب آفتاب کا کنارہ غروب ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ پورا غروب ہوجائے اور تم اپنی نماز آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت نہ پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔‘‘
(كتاب بدء الخلق،باب: صفة إبليس وجنوده، ج:3، ص:1193، ط:دار ابن كثير)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: بخلاف الفجر إلخ) أي فإنه لا يؤدي فجر يومه وقت الطلوع؛ لأن وقت الفجر كله كامل فوجبت كاملة، فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد.
قال في البحر: فإن قيل: روى الجماعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدركها، ومن أدرك ركعة من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح» " أجيب بأن التعارض لما وقع بينه وبين النهي عن الصلاة في الأوقات الثلاثة رجعنا إلى القياس كما هو حكم التعارض، فرجحنا حكم هذا الحديث في صلاة العصر وحكم النهي في صلاة الفجر، كذا في شرح النقاية."
(كتاب الصلاة، ج:1، ص:373، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وكرہ تحریمًا صلاة ... (مع شروق) إلا العوام، فلایمنعون من فعلها؛ لأنهم یتركونها، والأداء الجائز عند البعض أولى من الترك."
(كتاب الصلاة، ج:1، ص:370/371، ط:سعید)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"والأصل فيه حديث «عقبة بن عامر - رضي الله تعالى عنه - قال ثلاث ساعات نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا عند طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول وحين تضيف للغروب حتى تغرب».
وفي حديث الصنابحي «أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وقال إنها تطلع بين قرني الشيطان كأن الشيطان يزينها في عين من يعبدونها حتى يسجدوا لها فإن ارتفعت فارقها فإذا كان عند قيام الظهيرة قارنها فإذا مالت فارقها فإذا دنت للغروب قارنها فإذا غربت فارقها فلا تصلوها في هذه الأوقات»"
(كتاب الصلاة، باب مواقيت الصلاة، ج:1، ص:151، ط:دار المعرفة)
مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ مع سوال و جواب نقل کیا جاتاہے:
’’سوال: کوئی شخص فجر کی نماز پڑھنا چاہتاہے جب کہ طلوعِ آفتاب میں صرف ایک منٹ باقی ہے، کیا وہ نماز پڑھنا شروع کردے یا طلوعِ آفتاب کے بعد مکروہ وقت کے ختم ہونے تک توقف کرے؟ نیز بخاری شریف میں صفحہ نمبر 28 پر امام بخاری نے مستقل اسی مسئلہ پر باب باندھا ہے، اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں: وعن أبي هریرة أن رسول الله صلى الله علیه وسلم قال: من أدرك من الصبح ركعةً قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح۔۔۔ الخ کا کیا جواب ہے؟
جواب: اگر یہ شخص عوام میں سے ہے تو اس کو طلوع کے وقت نماز پڑھنے سے اس وقت نہ روکا جائے، مبادا وہ نماز کو ترک کردے۔ دوم یہ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس وقت بھی نماز جائز ہے، اس لیے نماز کا پڑھنا ترک کرنے سے بہتر ہے، کما قال فی الدر المختار۔
البتہ اس کو عادت نہ بنایا جائے، ویسے حدیث میں طلوع کے وقت نماز پڑھنے کو مکروہ فرمایا گیا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے مکروہِ تحریمی فرمایا ہے، آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، اس کے تعارض میں آنے والی احادیث آپ نے ذکر نہیں کی ہیں، جن میں تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔ اس لیے حنفیہ کے نزدیک نہی کی روایات کو راجح کہا گیا ہے۔ اور اس حدیث کے متعدد جوابات ہیں۔
‘‘کتبہ: ولی حسن ٹونکی
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604102474
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن