ہمارے والد صاحب کا انتقال 2009 میں ہوا،2015 میں دوبھائیوں نے اپنی ذاتی رقم سے کرائے پر دکان کھولی،ساری آمدنی اپنے پاس رکھتے تھے،اسی دوران 2015 سے 2023 تک ہم تین بھائیوں نے والد صاحب کے کاروبار کو خوب ترقی دی،جس کے نتیجے میں ایک فلیٹ اورایک گاڑی خریدی،اب دو چھوٹے بھائیوں کا یہ کہنا ہے کہ اس فلیٹ میں ہمارا بھی حصہ بنتا ہے،آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس فلیٹ میں ان دونوں بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟جب کہ گھر کے تمام اخراجات میں ہینڈل کرتا ہوں،وہ لوگ محنت اور کام نہیں کرتے،2023 سے گھر والا مکان (جس میں اوپر ہماری رہائش ہے اور نیچے دکانیں ہیں) اس کا کرایہ 70 ہزار روپے دو چھوٹے بھائی خود رکھ رہے ہیں،گھر کا خرچہ کچھ نہیں دیتے،واضح رہے کہ یہ مکان اور دکانیں والد صاحب کی جائیداد ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں والد کے انتقال کے بعد جن دو بھائیوں نے اپنی ذاتی رقم سے دکان کھولی تھی، تو اس سے حا صل ہونے والی کمائی کے حقدار یہی دو بھائی تھے جنہوں نے اپنی ذاتی رقم سے یہ دکان کھولی تھی،البتہ والد کے انتقال کے بعد جن تین بھائیوں نے والد کے کاروبار کو ترقی دینے کے نتیجے میں ایک فلیٹ اورایک گاڑی خریدی ہے ،شرعاً اس فلیٹ اور گاڑی میں مرحوم والد کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصہ کے بقدر شریک ہیں اور چھوٹے دوبھائیوں کا یہ مطالبہ کرنا کہ والد کے کاروبار کی آمدنی سے خرید کردہ فلیٹ میں ہمارا بھی حصہ بنتا ہے،ان بھائیوں کایہ مطالبہ بالکل بجا ودرست ہے۔
اسی طرح متروکہ مکان اور دکان جن کا کرایہ دو چھوٹے بھائی رکھ رہے ہیں،اس کرایہ پر صرف ان کا حق نہیں ہے،بلکہ اس میں بھی مرحوم والد کےتمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصہ کے بقدر شریک ہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"تنبيه: يقع كثيراً في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارةً يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافاّ لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك، كما حررته في تنقيح الحامدية.
ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحداً ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركاً بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصواباً، كما أفتى به في الخيرية".
( کتاب الشرکة،4/ 307، ط: سعید )
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح."
(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ص:206، ط:نور محمد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102654
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن