بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

’’اگرمیں بیوی کوطلاق دےدوں،توپھرخوش ہوگا‘‘ کا حکم


سوال

ہم دونوں میاں بیوی کاآپس میں کوئی جھگڑانہیں تھا،ہم دونوں ایک دوسرےکےساتھ پیارومحبت سےرہتےتھے،تین چارمہینےسےمیراجیٹھ میرےگھروالے(شوہر)کوتنگ کررہاتھا،اوردکان پرجاکرمیری باتیں کرتاتھاکہ ساری دکان تمہاری بیوی کھاتی جارہی ہے،اوران کےذمہ ہمارےپچاس ہزارروپےقرض ہے،جب میراشوہران سےپیسےمانگتاہےتووہ لڑنےلگتاہے،اس دوران ہمارےکچھ گھریلومعاملات کی وجہ سے میرےشوہرنےغصےمیں اس کوکہاکہ" اگربیوی کوطلاق دےدوں توپھرخوش ہوگا"دوسری دفعہ جب کہاتومیراشوہربےہوش ہوگیا،اوردوسری مرتبہ طلاق کالفظ پوراکہنےسےپہلےبےہوش ہوگیا،نہ تواس نےمجھےکہااورناہی میرانام لیا،ہم پریشان ہیں،آپ راہ نمائی کریں کہ طلاق ہوگئی ہےیانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گھریلومعاملات کی وجہ سے شوہرکااپنےبھائی کوغصہ میں یہ کہناکہ"اگرمیں بیوی کوطلاق دےدوں،توپھرخوش ہوگا"یہ کہنے کےبعداگرشوہرنےبیوی کو  کسی قسم کی  کوئی طلاق نہیں دی ہے،تومذکورہ جملہ سےبیوی پرطلاق واقع نہیں ہوئی میاں بیوی کانکاح بدستورقائم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص  خال عن الاستثناء (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر."

(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،230/3 سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں