کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ قسم کھائی تھی کہ استمناء بالید نہیں کروں گا ،اور اگر یہ اس فعل کا ارتکاب کرلیاتوہمیشہ دس روزے رکھوں گا ،غالب گمان یہ ہے کہ کم از کم مجھ پر ایک ہزار روزے واجب ہوتے ہیں تو کیا سب روزے رکھنے پڑیں گے یا فدیہ دے سکتا ہوں ؟نیزیہ بھی بتادیں کہ اس فعل سے باز کیسے رہوں؟ جلد نکاح کے لیے کوئی وظیفہ بھی بتادیں۔
کسی نے یہ قسم کھائی تھی کہ اگر میں نے استمناء بالید کرلیا تو میں ہمیشہ دس روزے رکھوں گا ،جب بھی سائل سے مذکورہ عمل صادر ہوا،تو اس پر ہرمرتبہ دس دس روزے لازم ہو گئے،سائل کے بقول تقریباًایک ہزار روزے لازم ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے سائل پر سو کفارے(یعنی ہر مربتہ کے بدلے دس ،دس روزے)لازم تھے ،تاہم اگر اب تک روزہ رکھ کر کفارہ ادا نہیں کیاتوجنس ایک ہونے کی وجہ سے ایک ہی کفارہ(یعنی دس روزے )کافی ہوں گے۔
البتہ مشت زنی سخت گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہیے اور یہ عمل فوری طور پر ترک کرنا چاہیے۔ اس کے لیے مذکورہ شخص اپنے نفس کی مخالفت کرے اور اس عارضی لذت کی خاطر اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کو تباہ نہ کرے،اس گناہ سے حفاطت کے لیے اللہ سے خوب دعا بھی مانگےاور اگر اس کے باوجود باز آنا مشکل ہو تو جب تک شادی نہ ہوجائے روزےرکھتا رہے،اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہے۔
شادی کے لیے ان وظائف کا اہتمام کریں۔
(1) روزانہ سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنے کے بعد یقین کے ساتھ دعا کا اہتمام فرمائیں ۔
(2)"رَبِّ إِنِّي لِمَاأَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ"(القصص:24)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب تتعدد الكفارة لتعدد اليمين(قوله وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع."
(کتاب الایمان،مطلب تتعدد الکفارۃ،ج3،ص714،ط:سعید)
الاشباہ والنظائر میں ہے:
"إذا اجتمع أمران من جنس واحد ولم یختلف مقصودھما دخل أحدھما في الآخر غالباً."
(القاعدۃ الثامنۃ،ص112،ط:رشیدیہ)
مشکوٰۃالمصابیح میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."
(کتاب النکاح،الفصل الاول،ج2،ص927،ط:المکتبۃ الاسلامی بیروت)
کنزالعمال میں ہے:
"اقرأوا يس فإن فيها عشر بركات ما قرأها جائع إلا شبع وما قرأها عار إلا اكتسى وما قرأها أعزب (1) إلا تزوج وما قرأها خائف إلا أمن وما قرأها محزون إلا فرح وما قرأها مسافر إلا أعين على سفره وما قرأها رجل ضلت له ضالة إلا وجدها وما قرئت على ميت إلا خفف عنه وما قرأها عطشان إلا روي وما قرأها مريض إلا بريء".
(الباب السابع في تلاوة القرآن وفضائله، الفصل الثاني في فضائل السور، ج1، ص589-590، ط: مؤسسة الرسالة)
التحریر والتنویر میں ہے:
"وقوله إني لما أنزلت إلي من خير ثناء على الله بأنه معطي الخير...وأحسن خير للغريب وجود مأوى له يطعم فيه ويبيت وزوجة يأنس إليها ويسكن... فكان استجابة الله له بأن ألهم شعيبا أن يرسل وراءه لينزله عنده ويزوجه بنته، كما أشعرت بذلك فاء التعقيب في قوله فجاءته إحداهما...عرفت أن الفاء تؤذن بأن الله استجاب له فقيض شعيبا أن يرسل وراء موسى ليضيفه ويزوجه بنته."
(القصص:آیت24، ج20،ص: 103،ط:الدار التونسیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101121
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن