بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر تمہیں میرے گھر کا کوئی بندہ واپس لینے کےلیے آیا تو میرے اوپر تم طلاق ہو کا حکم


سوال

میر ی بیوی کا میری والدہ کے ساتھ جھگڑا ہوا ،اس پر میری  اس سے فون پر بات ہوئی  اور میں نے کہا دو دن کا ٹائم دو میں آجاؤں گا ،میں تمہا را انصاف کروں گا،لیکن اپنے میکے ناراض ہوکر نہیں جانا اگر چلی گئی تو واپس لینے کےلیے میرے گھر کا کوئی بندہ نہیں آئے گا" اگر تمہیں میرے گھر کا کوئی بندہ واپس لینے کےلیے آیا تو میرے اوپر تم طلاق ہو" پھر دوسرے دن بیوی نے  جاتے ہوئے ماں کو اور ساتھ میں دو بندے اور تھے،ان کو کہا میں اپنے شوہر کی قسم پو ری ہونے نہیں دوں گی،میں خود واپس آؤں گی،جس دن میر ا شوہر آجائے،  جب میں گھر آیا تو اس کا  کوئی رابطہ مجھ سے نہ ہوسکا، اس کے بھائیوں کا رابطہ ہوا  تو بھائیوں نے کہا کہ جرگہ بٹھاؤ کچھ شرطیں مانو اور اپنی بیوی  واپس لے جاؤ، میں جرگہ لے کر گیا لیکن شرطیں ماننے کےلیے اورباتیں ختم کرنےکےلیے ، نہ کو بیوی کو واپس لانے کےلیے، ان شرائط میں سے ایک شرط یہ  تھی کہ اپنی بیوی کو تم خود لے کر جاؤ گے ورنہ نہیں۔ اب آیا اگر میں اپنی بیوی کو خود لے کر آتا ہوں تو کیا طلاق  واقع ہوگی ؟اگر کوئی شخص میرے گھر کے افراد کے علاوہ لے آئے تو کیا اس سے بھی طلاق واقع ہوگی  یا نہیں ؟

میری اپنے سالوں کے ساتھ کچھ ناچا قیاں تھیں، جس میں  میری بیوی میری طرف تھی، جب میں  اپنی بیوی کو گاؤں لا یا تو ان کے بھائیوں نے ایک سال تک اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھا حتیٰ کہ ہمارے پڑوس کے گھر آئے لیکن اپنی بہن کے گھر نہیں آئے ،اس پر مجھے افسوس ہوا تو میں نےکہا کہ" جب تک تمہارے بھائی بیٹھ کر سارے مسئلے رنجشیں ختم نہیں کرلیتے تب تک تم ایک بھائی (متعین )کے گھر نہیں جاؤگی اگر گئی توتم  میرے اوپر ناجائز ہو گی" ناجائز سے سائل کی نیت طلاق کی تھی، ابھی تک وہ کسی بھی بھائی کے گھر نہیں گئی ہے، حالاں کہ ایک بھائی کے گھر جانے سے منع کیا تھا،  کل   جرگہ میں   بھائیوں کے ساتھ  سارےمسئلے اوررنجشیں ختم ہوگئیں، تو کیا اب اگر وہ اپنے بھائی کے گھر جانا چاہتی ہے، تو طلاق  ہوگی  یا نہیں ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائل کا اپنی بیوی کو یہ  کہنا کہ " اگر تمہیں میرے گھر کا کوئی بندہ واپس لینے کےلیے آیا تو میرے اوپر تم طلاق ہو"اب اگر سائل کے گھر کے افراد میں سے کوئی شخص لینےکےلیے گئےتو  شرط پوری ہونےکی وجہ سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی  واقع ہوجائے گی،لیکن اگر سائل  خود یا سائل کے گھر کے افراد کے علاوہ کو  ئی فرد لینے کےلیے جائےتو شرط نہ پائی جانے کی وجہ سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، نکاح بدستور قائم رہے گا۔

2۔صورت مسئولہ میں سائل کاا پنی بیوی کو یہ کہنا کہ " جب تک تمہارے بھائی بیٹھ کر سارے مسئلے رنجشیں ختم نہیں کرلیتے تب تک تم ایک بھائی (متعین)کے گھر نہیں جاؤگی اگر گئی تو   تم میرے اوپر ناجائز ہو گی" اب چوں کہ  سائل کی بیوی کے بھائیوں کی آپس میں رنجشیں ختم ہوگئی ہیں؛  لہذا سائل کی بیوی  پر کسی بھی بھائی بشمول متعین بھائی کے گھر   جانے پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،نکاح بدستور قائم رہے گا  ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،ج:1،ص:420، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ج:2،ص:82، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں