بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

احادیث کی روشنی میں سونا چاندی کے نصاب کے دلائل / موجودہ زمانے میں سونا چاندی کی قیمت میں تفاوت کے پیشِ نظر اصل نصابِ زکات


سوال

1:ساڑھے سات تولہ سونا ، ساڑھے باون تولہ چاندی کیا یہ نصاب قرآن و حدیث میں ہے؟

2:زکات میں اصل نصاب کیا ہے؟نبی کریم ﷺ کے دورِ نبوت میں یہ نصاب طے ہوا ہوگا تو دونوں چیزوں کا وزن بتا رہا ہے کہ اُس وقت دونوں کی قیمت تقریباً ایک جیسی ہوگی۔ لیکن آج کل بہت فرق آگیا ہے، کیا جس کے پاس ایک تولہ سونا ہو جس کی قیمت اس وقت تقریباً255000  ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی تقریباً 185000 ہے۔تو سوال یہ ہے کہ ایک تولہ والا تو زکات ادا نہیں کرے گا، اور ساڑھے باون تولہ چاندی والا زکات بھی ادا کرے گا اور اُس پر قربانی بھی واجب ہوگی۔برائے مہربانی یہ اشکال دور فرمائیں۔ 

جواب

1:زکات میں سونا چاندی کے نصاب  کے بارے میں وارد احادیث مبارکہ:

شریعت کی رُو سے سونا  چاندی کی زکات کی تفصیل یہ ہے کہ چاندی ساڑھے باون اور سونا ساڑھے سات تولہ یہ زکات کا نصاب ہے،زکات کا  یہ نصاب احادیث مبارکہ سےثابت ہے،چند احادیث  ذیل میں درج ہیں۔

بخاری شریف میں حضور نبی  کریم ﷺ کا فرمانِ ذیشان ہے:

"حدثنا إسحاق بن يزيد: أخبرنا شعيب بن إسحاق: قال الأوزاعي: أخبرني يحيى بن أبي كثير: أن عمرو بن يحيى بن عمارة أخبره، عن أبيه يحيى بن عمارة بن أبي الحسن: أنه سمع أبا سعيد رضي الله عنه يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ليس فيما دون خمس أواق صدقة."

(كتاب الزكاة، رقم الحديث:1405، ج:2، ص:107، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں صدقہ  (زکات) نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ایک اوقیہ 40 دراہم کا ہوتا تھا،لہذا پانچ اوقیہ کے 200 دراہم ہوئے، اور چاندی کا نصاب 200 دراہم ہی ہیں، یہ دوسو دراہم مروجہ وزن کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی بنتی ہے۔ایک اوقیہ کا چالیس دراہم کے برابر ہونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

سنن دارقطنی کی حدیث میں ہے:

"عن جابر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا زكاة في شيء من الحرث حتى يبلغ خمسة أوساق فإذا بلغ خمسة أوساق ففيه الزكاة، والوسق ستون صاعا ، ولا زكاة في شيء من الفضة ‌حتى ‌يبلغ ‌خمسة ‌أواق ، والوقية أربعون درهما."

(كتاب الزكاة، رقم الحديث:1922، ج:2، ص:483، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا : کسی بھی کھیت (کی زرعی پیداوار) میں جب تک پانچ وسق تک نہ پہنچے اُس میں  زکوۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی، اور جب وہ پانچ وسق تک پہنچ جائے گی  تو اس پر زکوۃ  لازم ہوگی اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور چاندی  جب تک پانچ اوقیہ نہ ہوجائے تو اُس میں زکوۃ  فرض نہیں ہوتی،اور ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے۔"

 حضرت عبداللہ ابن عمر  اور حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہم سے سونے کے نصاب کے بارے میں حدیث مروی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عمر، وعائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم، كان يأخذ ‌من ‌كل ‌عشرين ‌دينارا فصاعدا نصف دينار، ومن الأربعين دينارا دينارا."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الورق والذهب، رقم الحديث:1791، ج:1، ص:571، ط:دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:" حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ میں آدھا دینار (زکات)لیتے تھے، اور چالیس دینار میں ایک دینار کے حساب سے (زکات)لیتے تھے۔"  

آپ ﷺ نےجو سونے کا نصاب بیس دینارمتعین فرمایا آج کل یہ بیس دینار وزن کے اعتبار سے ساڑھے سات تولہ بنتےہیں۔

اسی طرح خلیفہ رابع حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےصریح روایت منقول ہے کہ” دو سو درہم چاندی میں پانچ درہم چاندی اور بیس دینار سونے میں نصف دینار سونے کی ادائیگی بطورِ زکات لازمی ہے۔“

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض أول هذا الحديث قال: «فإذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء يعني في الذهب حتى تكون لك عشرون دينارا، فإذا كانت لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار، فما زاد فبحساب ذلك."

(كتاب الزكاة، رقم الحديث:1573، ج:2، ص:10، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي-الهند)

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ  درہم زکاۃ واجب ہو گی، اور سونا جب تک بیس  دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس  دینار ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہو گی (یعنی چالیسواں حصہ زکات واجب ہوگی)۔"

اسی طرح  آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحضرت عمرو بن حزم اورحضرت معاذ رضی اللہ عنہما کی جانب زکات وغیرہ کے نصابات لکھ کر بھیجے، اُس میں سونے چاندی کا یہی نصاب صراحتاً مذکور ہے۔لہذا سونے چاندی کا مذکورہ نصاب  حضور ﷺ کا مقرر کردہ منصوصی نصاب ہے،  علماء و  فقہاء کرام نے اپنی طرف سے مقرر نہیں کیاہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له الصنفان جميعا، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كتب كتاب الصدقات لعمرو بن حزم ذكر فيه الفضة ليس فيها صدقة حتى تبلغ مائتي درهم فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم.وروي عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاذ لما بعثه إلى اليمن «ليس فيما دون مائتين من الورق شيء، وفي مائتين خمسة»."

(کتاب الزکٰوۃ، فصل وأما الأثمان المطلقة، ج:2، ص:16، ط:دارالكتب العلمية)

2:زکات میں اصل نصاب، سونا یا چاندی...؟

زکوٰۃ کے نصاب میں سونا اور چاندی دونوں ہی معیار ہیں، کیوں کہ دونوں ثمن ہیں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت میں چاندی اور سونا دونوں کے  الگ الگ  نصاب مقرر کیے گئے تھے(جیسا کہ ماقبل میں تفصیل گزرچکی)، لہذا  جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ہو وہ بھی شریعت کی نظر میں ویسا ہی مالدارہے جیسا وہ شخص جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو۔موجودہ حالات میں سونا چاندی کی قیمتوں میں تفاوت کی وجہ سے زکات کے نصاب میں فرق نہیں آئے گا، طلب و رسد کی بنیاد پر اشیاء کی قیمتوں میں تفاوت ہوتا رہتا ہے۔ اگرکوئی شخص نصاب  کے بقدر نصاب کا مالک ہےتو شریعت کی نظر میں وہ مالدار ہے،اگر چہ دیگر اموال کے ساتھ موازنہ میں اُس کا مال کم قیمت ٹھہرے، لہذا ساڑھے باون تولہ چاندی کا مالک صاحبِ نصاب شخص سال پورا ہونے پر زکات بھی ادا کرے گا اور قربانی بھی اُس پر واجب ہوگی۔بہر کیف زکات کا نصاب سونے چاندی ہر دو اعتبار سے یہ نصوص شریعہ سےثابت  ہے، اورمنصوصی احکامات حالات کے چلن اور زمانے کے ردوبدل سے تبدیل نہیں ہوتے، مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ احکامات کی لاجک تلاش کرنے کے بجائے اُن پر عمل کی فکر کرے۔

باقی اگر کسی کے پاس مخلوط نصاب ہو یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی یا نقدی یا مالِ تجارت ہو تو اس صورت میں نصاب کا معیار سونے کو بنایا جائے گا؟ یا چاندی کو؟ اس بارے میں فقہائے کرام  کے اقوال مختلف ہیں۔ البتہ راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ اس میں چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے گا، کیوں کہ نصاب میں اصل چاندی ہے اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں سونے کو چاندی کے تابع کیا گیا تھا، اور ایک دینار کو دس دراہم کے برابر قرار دیا گیا تھا، نیزمخلوط نصاب میں چاندی کو معیارِ بنانے میں آج کل فقراء و مستحقین کا نفع بھی زیادہ ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: قربانی کے نصاب کا معیار سونا یا چاندی؟

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:

"والذهب محمول على الفضة، وكان في ذلك الزمان صرف دينار بعشرة دراهم ‌فصار ‌نصابه عشرين مثقالا."

(كتاب الزكاة، باب مقادير الزكاة، ج:2 ، ص: 67، ط: دار الجبل)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي أنه يقوم بأوفى القيمتين من الدراهم والدنانير حتى إنها إذا بلغت بالتقويم بالدراهم نصابا ولم تبلغ بالدنانير قومت بما تبلغ به النصاب. وكذا روي عن أبي حنيفة في الأمالي أنه يقومها بأنفع النقدين للفقراء. ومشايخنا حملوا رواية كتاب الزكاة على ما إذا كان ‌لا ‌يتفاوت ‌النفع في حق الفقراء بالتقويم بأيهما كان حتى يكون جمعا بين الروايتين"وجه قول أبي حنيفة أن الدراهم والدنانير وإن كانا في الثمنية ‌والتقويم ‌بهما سواء، لكنا رجحنا أحدهما بمرجح وهو النظر للفقراء، والأخذ بالاحتياط أولى."

(كتاب الزكاة، فصل مقدار الواجب من نصاب التجارة، ج:2، ص: 21، ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"وفي الخلاصة قال: إن شاء قومها بالذهب وإن شاء بالفضة. وعن أبي حنيفة أنه يقوم بما هو الأنفع للفقراء. وعن أبي يوسف يقوم بما اشترى، هذا إذا كان يتم النصاب بأيهما قوم، فلو كان يتم بأحدهما دون الآخر قوم بما يصير به نصابا انتهى. والمذكور في الأصل المالك بالخيار إن شاء قومها بالدراهم وإن شاء بالدنانير من غير ذكر خلاف، فلذا أفادت عبارة الخلاصة التي ذكرناها والكافي أن اعتبار الأنفع رواية عن أبي حنيفة، وجمع بين ‌الروايتين ‌بأن ‌المذكور في الأصل من التخيير هو ما إذا كان التقويم بكل منهما لا يتفاوت."

(كتاب الزكاة،‌‌ باب زكاة المال، فصل في العروض، ج:2، ص:298، ط:دار الفكر)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144607102858

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں