میرے بھائی نے ایک عیسائی کرسچن خاتون سے نکاح کیا ہے ، مختلف دار الافتاء سے رجوع کرنے کے بعد یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ اگر وہ اہل کتاب اپنے مذہب پر ہیں تو نکاح ہوگا ورنہ نہیں، اب آپ سے سوال یہ ہے کہ ہمیں کچھ ایسے مختصر سوالات لکھ کردیں جو ہم اس عیسائی خاتون سے کریں اور ان سوالات سے اندازہ ہوسکے کہ یہ اہل کتاب ہے یا نہیں اور اس سے نکاح رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ (عیسائی) وغیرہ ہو تو اس سے مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:
(1) وہ صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔
(2) وہ اصل ہی یہودیہ یانصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو،جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے ۔
1۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کرلیا جائے کہ وہ عیسائی مذہب کو مانتی ہے یا نہیں،عمل اگرچہ اس کے خلاف کرے۔
2۔اس سے ان کے نبی کے بارے میں پوچھا جائےکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتی ہے یانہیں ۔
3۔اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب کو مانتی ہے یا نہیں۔
اگر مذکورہ عورت عیسائی مذہب ،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام،اور ان پر نازل ہونے والی کتاب کو مانتی ہے ،تو نکاح درست ہو جائےگا،اور اگر ان مذکورہ باتوں کو نہیں مانتی تو نکاح درست نہیں ہو گا،اور اسی طرح اگر وہ اسلام سے مرتد ہو کر کرسچن ہوئی ہے تو بھی نکاح درست نہیں ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً.
(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داؤد فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره."
(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3،ص:45،ط :سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101968
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن