بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل بدعت کی مجالس میں علماء کا شریک ہونا


سوال

1)جو علماء حضرات اہلِ بدعت کے اجتماعات مثلاً قل خوانی ،تیجہ وغیرہ میں جاتے ہیں اور بیانات کرتے ہیں ،وہ اس کو بزعمِ خود ایک دینی فریضہ انجام دیتے ہیں ،کیا واقعۃ یہ دین کی خدمت ہے؟

2)ایسے علماء کا شمار اہل حق ،اکابرین اور مقتدی میں کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ان کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

3)ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم کسی موقع پر نہیں جائیں ،تو اہلِ بدعات چلے جائیں گے ،جس سے مزید ان کے عقیدہ میں فساد کا اندیشہ ہے،کیا یہ دلیل، شرعی حجت ہے؟لوگوں کو حق پر لانے اور گمراہی سے بچانے کے ہم لوگ کس حد تک مکلف ہیں؟

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں علماء حضرات کا اہلِ بدعت کے اجتماعات قل خوانی ،تیجہ وغیرہ میں  شریک ہونا  درست نہیں ،بلکہ اہلِ علم پر لازم ہے کہ ایسی مجالس کے انعقاد سے دیگر لوگوں کو جانے سے روکیں ، ان مجالس میں شرکت کو  دین کی خدمت  یا دینی فریضہ تصور کرنابالکل درست نہیں ہے۔ 

2)اہلِ بدعت کی مجالس میں شرکت کرنے والا شخص اپنے اس عمل میں لائقِ تقلید نہیں ،تاہم اسے علی الإطلاق اہلِ حق کی صفوں سے نکالنا درست نہیں، نیز ان کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے ۔

3)اہلِ بدعت کی مجالس میں شرکت کرنے والے علماء کی یہ دلیل درست نہیں ہے کہ اگر ہم کسی موقع پر نہیں جائیں تو اہلِ بدعت چلے جائیں گے ،جس سے مزید ان کے عقیدہ میں فساد کا اندیشہ ہے،کیوں کہ اللہ تعالی نے ان مجالس میں شرکت سے منع فرمادیا ہے ،جہاں تک بات مکلف کی ہےتو ہر مسلمان   خدا کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق تبلیغ مکلف ہے ،اس بارے حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں۔ اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں۔ ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی“۔

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن) 

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ ایک فتوی کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :

"تیجہ ،وغیرہ سب بدعت ضلالہ ہیں ،کہیں اس کی اصل نہیں" ۔

(فتاو ی رشیدیہ ،کتاب العلم ،ص:162،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)

قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"‌وَقَدْ ‌نَزَّلَ ‌عَلَيْكُمْ ‌فِي ‌الْكِتابِ أَنْ إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ "( النساء،140)

ترجمہ:اور اللہ تعالی تمہارے پاس یہ فرمان بھیج چکاہے کہ جب احکام الٰہیہ کے ساتھ کفر اور استہزاء ہوتا ہوا سنو تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو جب تک کےوہ کوئی اور بات شروع نہ کر دیں کہ اس حالت میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے "

مفتی رشید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ :

"اس آیت سے عدمِ شرکتِ مجالس غیر مشروط ثابت ہوتی ہے"۔

(فتاوی رشیدیہ،کتاب العلم،ص:156،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)

اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ ‌يَخُوضُونَ ‌فِي ‌آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ"(الانعام ،68)

ترجمہ:اور جب ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر  رہے ہیں ،تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جا ،یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں ،اور اگر تجھ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالموں کے پاس مت بیٹھ ۔(بیان القرآن)

آیتِ مذکورہ میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ:

"آیاتِ مذکورہ میں مسلمانوں کو ایک اہم اور اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ جس کام کا خود کرنا گناہ ہے اس کے کرنے والوں کی مجلس میں شریک رہنا بھی گناہ ہے ،اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔۔۔۔اس آیت کا خطابِ عام ہر مسلمان کو ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی داخل ہیں ،اور امت کے افراد بھی ۔۔۔

(معارف القرآن ،ج:3،ص:370،ط:مکتبہ معارف القرآن )

فتاوی عالمگیریہ  میں ہے:

"‌ولو ‌دعي ‌إلى ‌دعوة فالواجب أن يجيبه إلى ذلك، وإنما يجب عليه أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية، ولا بدعة، وإن لم يجبه كان عاصيا والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقينا بأنه ليس فيها بدعة، ولا معصية كذا في الينابيع."

(کتاب الکراہیہ،باب فی الضیافات،ج:5،ص:343،ط:رشیدیہ)

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :

"زید کے لیے مصالح مدرسہ کے خاطر ان مجالس بدعت میں شرکت کرنا جائز نہیں ،یہ ایسا ہو گیا جیسا کہ باجے بجا کر لوگوں کو جمع کیا جائے اور پھر انہیں نماز کی طرف دعوت دی جائے ،اس کی اجزت نہیں "

(فتاوی محمودیہ،باب البدعات و الرسوم ،3،ص:245،ط:مکتبہ فاروقیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں