بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اہل میت کے ہاں کھانا بھیجنا


سوال

ہمارے پٹھانوں میں ایک رواج ہے کہ جب کوئی مر جائے تو میت کے دوست اقارب و غیرہ اس میت کے گھر والوں کے لیے ایک قسم کھانا تیار کرتے ہیں، جس کو ہماری زبان میں "ویروثی " کہتے ہیں ، جس کا طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے :

(1) حیوان ذبح کر کے مرحوم کے پسماندگان کو کھلاتے  ہیں، اور  عزیز واقارب خود بھی کھالیتے  ہیں۔

(2) کبھی کبھار مہمان نوازی کے نام پر جانور ذبح کر کے مرحوم کے پسماندگان کو کھلاتے  ہیں، اور  عزیز واقارب خود بھی کھالیتے  ہیں۔

(3) کبھی کبھار عزیز واقارب  میت کے پڑوسی کے گھر میں جانور ذبح کر کے پسماندگان کو بلا کر کھلاتے ہیں۔

(4) کبھی زندہ جانور میت  کے گھر والوں کو دیا جاتا ہے، پھر وہ خود ذبح کر کے کھا لیتے ہیں ۔

(نوٹ) اس کھانے ”ویروثی“ میں وقت کی تعیین نہیں ہوتی ہے، بلکہ کبھی پہلے دن اور کبھی کچھ دنوں کے بعد یہ  کھانا عزیز واقارب  کی طرف سے  تیار کیا جاتا ہے۔

جواب

اہل میت کے رشتہ دار ، پڑوسی یا متعلقین کے لیے مستحب  اور باعثِ اجر وثواب ہے کہ میت کے گھروالوں کے لیے ایک دن ( دو وقت ) کے کھانے کا انتظام کریں،  اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، یہ اہل میت کے ساتھ اظہار ہمدردی اور غمخواری ہے، پھر چاہے یہ کھانا دعوت کے نام سے ہو یا ضیافت کے نام سے ہو ،جائز ہے، اور کھانا تیار کرکے میت کے گھر میں بھیج دیا جائے یا مرد حضرات کو یہاں بلالیا جائے جیسے آسانی ہو جائز ہے، نیز کھانا تیار کرنے والے عزیز و اقارب اہل میت کے ساتھ بیٹھ کر یا پھر ان سے بچا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں۔البتہ اس میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہیں:

۱- یہ کھانا بھیجنا ایک دن (دو وقت) ہو، اور ضرورت ہو تو تین دن تک بھیجنا بھی جائز ہے، تین سے زیادہ اس عمل کو جاری رکھنا جائز نہیں۔

۲-اس میں ادلہ بدلہ کی نیت نہ ہو جیسا کہ بعض  جگہ ادلہ بدلہ کا خیال رکھا جاتا ہے اور کھانا تک دیکھا جاتا ہے کہ جیسا ہم نے دیا تھا، ویسا ہی ہے، یا کم درجہ کا۔

۳-کھانا بقدرِ استطاعت تیار کیا جائے،  پر تکلف اور بڑھیا کھانا بھیجنے کی زحمت اس میں نہ ہو، جیسا کہ بعض جگہوں میں بدنامی کی خوف سے  پر تکلف اور بڑھیا کھانا بھیجنے کی زحمت کی جاتی ہے۔

(4) زندہ جانور میت کے گھروالوں کو بھیجنا درست نہیں، کیونکہ یہ کھانا اہل میت کے ہاں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین میں مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملتا، جب کہ زندہ جانور بھیجنے میں یہ وجہ نہیں پائی جار ہی ، بلکہ زندہ جانور بھیجنا محض رسم ہوسکتا ہے، اس لیے اس کی جگہ  بقدرِ استطاعت کھانا تیار کرکے بھیجا جائے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم) رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه."

(کتاب الجنائز،  باب البكاء على الميت، الفصل الثانی، ج:1، ص:545، ط:المكتب الإسلامي)

”حضرت عبد اللہ ابن جعفر (رضی اللہ عنہ )کی روایت ہے کہ جب میرے والد حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کی خبر آئی تو نبی کریم ﷺ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو، ان کے پاس ایسی (غمناک) خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول رکھا ہے۔“

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ; لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف."

(كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت، ج:3، ص:1241، ط:دار الفکر)

زاد المعاد میں ہے:

"وكان من هديه صلى الله عليه وسلم أن أهل الميت لا يتكلفون الطعام للناس، بل أمر أن يصنع الناس لهم طعاما يرسلونه إليهم، وهذا من أعظم مكارم الأخلاق والشيم، والحمل عن أهل الميت، فإنهم في شغل بمصابهم عن إطعام الناس."

(فصل في حكم التعزية وعدم الاجتماع لها، ج:1، ص:209، ط:مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولا بأس بنقله قبل دفنه وبالإعلام بموته وبإرثائه بشعر أو غيره، لكن يكره الإفراط في مدحه لا سيما عند جنازته، لحديث :"من تعزى بعزاء الجاهلية" وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر وباتخاذ طعام لهم

(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم :"اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم" حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون."

(‌‌باب صلاة الجنازة، فروع في الجنائز، ج:2، ص:239، ط:سعید)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

”لہذا صورت مسئولہ میں حدیث پر عمل کرنے کی نیت سے اہل میت کے رشتہ دار پڑوسی یا متعلقین ان کے لئے کھانے کا انتظام کریں تو یہ امر مستحب ہے اور قابل اجر و ثواب ہے اور اہل میت کے ساتھ اظہار ہمدردی اور غمخواری بھی ہے مگر یہ کام صرف رضاء الہی اور عمل بالحدیث کی نیت سے ہونا چاہئے محض رسما دکھاوے اور ناموری کی نیت سے نہ ہو اور محققین کے نزدیک اس کی میعاد ایک دن رات ہے۔

حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

اکتیسواں مسئلہ ۳۱: دستور ہے مرنے کے بعد اہل قرابت میت کے اور ہمسایہ اس کے اس میت کے گھر کھانا بھیجتے ہیں سوکئی دن تک کھانا بھیجنا اہل مصیبت کو جائز ہے؟

( لجواب) مستحب ہے ایک دن رات تک پیٹ بھر کے کھانا بھیجنا میت کے گھر اقربا اور ہمسایہ کے لوگوں کو۔“

(کتاب الجنائز، ج:7، ص:139، ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

”میت کے قریبی رشتہ دار گھروالوں کے لائق کھانا بھیج دیں تو یہ جائز اور مستحب ہے، اور یہ صرف تین دن تک۔”

(کتاب الجنائز، ج:4، ص:123، ط:دار الاشاعت)

احکام میت میں ہے:

”بعض جگہ میت کے رشتہ داروں کے یہاں سے اُن کے لیے کھانا آتا ہے، یہ بہت اچھی بات ہے، بلکہ مسنون ہے ، لیکن بعض لوگ اس میں بھی طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہیں ، جن کی اصلاح ضروری ہے، مثلاً بعض جگہ ادلہ بدلہ کا خیال رکھا جاتا ہے اور کھانا تک دیکھا جاتا ہے کہ جیسا ہم نے دیا تھا، ویسا ہی ہے، یا کم درجہ کا۔ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں اگر دُور کارشتہ دار بھیجنا چاہے، تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے اور قریبی رشته دارا گرچہ تنگدست ہوں، بدنامی کے خوف سے پر تکلف اور بڑھیا کھانا بھیجنا ضروری سمجھتے ہیں ، اگر چہ اس کے لئے قرض لینا پڑے۔ یہ سب رسمیں خلاف شریعت ہیں، کھانا بھیجنے میں بے تکلفی اور سادگی سے کام لینا چاہیے، جس عزیز کو توفیق ہو، وہ کھانا بھیج دے، نہ اس میں ادلے بدلے کا خیال کرنا چاہیے، نہ اس کا کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار کیسے بھیج دے؟ بعض لوگ دور کے رشتہ دار کو ہرگز بھیجنے نہیں دیتے ، یہ سب امور قابل اصلاح ہیں۔“

(احکام میت:باب ہشتم، ص:390، ط:ادارۃ المعارف کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں