بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اہلِ یورپ کے ذبیحے کا حکم


سوال

میں یورپ میں مقیم ہوں اور ایک ہوٹل میں کام کرتا ہوں، میں گوشت کے کھانےکے متعلق سوال پوچھنا چاہتا ہوں، سوال یہ ہے کہ تمام کام کرنے والے ورکرز کو دو وقت کا کھانا ہوٹل کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے جس میں کبھی مرغی کا گوشت اور زیادہ تر سور کا گوشت روزانہ کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، جب کہ اس کے ساتھ آلو اور کبھی پاستہ شامل ہوتا ہے،  میرے لیے مرغی کا گوشت کھانے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو مرغی کا جو گوشت کھانے کے لیے دیا جاتا ہے اگر اسے مسلمان شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہیں یا وہ اہلِ کتاب اسے ذبح کرتے ہیں جو اصل عیسائی یا یہودی مذہب پر قائم ہیں، اور  اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کرتے ہیں، یعنی ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں، غیر اللہ کا نام نہیں لیتےتو   سائل کےلیےان کی ذبح کی ہوئی مرغی کاگوشت کھانا حلال ہے، بشرطیکہ وہ پاک برتن اور حلال اشیاء میں تیار کی گئی ہو، یعنی گھی، تیل اور مسالا جات وغیرہ پاک اور حلال ہوں۔ لیکن اگر مرغی ذبح کرنے والے  صرف نام کے  اہلِ کتاب ہوں، حقیقت میں دہریے لامذہب  ہوں،یا پھراسلامی طریقےکےمطابق ذبح  نہیں کرتے یعنی ذبح کےوقت غیراللہ کانام لیتےہیں یاپھرمشین سےذبح کرتےہیں یاانجکشن سےحیوان کومارتےہیں یااس کاگلاگھونٹتےہیں توپھرسائل کےلیےان کی ذبح کی  ہوئی مرغی کاگوشت کھاناحلال نہیں ہے۔

ملحوظ رہے کہ خنزیر کے گوشت کے ساتھ آلو اور پاستا وغیرہ پکایا جائے تو خنزیر کی وجہ سے اس کھانے کے دیگر اجزا کھانا بھی حلال نہیں ہوگا۔

تفسیرقرطبی میں ہے:

"الثالثة: و لا خلاف بين العلماء أن ما لا يحتاج إلى ذكاة كالطعام الذي لا محاولة فيه كالفاكهة والبر جائز أكله، إذ لا يضر فيه تملك أحد. والطعام الذي تقع فيه محاولة على ضربين: أحدهما- ما فيه محاولة صنعة لا تعلق للدين بها، كخبز الدقيق، وعصر الزيت ونحوه، فهذا إن تجنب من الذمي فعلى وجه التقزز. والضرب الثاني- هي التذكية التي ذكرنا أنها هي التي تحتاج إلى الدين والنية، فلما كان القياس ألا تجوز ذبائحهم- كما نقول إنهم لا صلاة لهم ولا عبادة مقبولة- رخص الله تعالى في ذبائحهم على هذه الأمة، وأخرجها النص عن القياس على ما ذكرناه من قول ابن عباس، والله أعلم۔"

(‌‌[سورة المائدة (5): آية 5]، 77/6، ط:دار الكتب المصرية)

تفسیرابن کثیرمیں ہے:

"ثم ذكر حكم ذبائح أهل الكتابين من اليهود والنصارى، فقال: {وطعام الذين أوتوا الكتب حل لكم} قال ابن عباس، وأبو أمامة، ومجاهد، وسعيد بن جبير، وعكرمة، وعطاء، والحسن، ومكحول، وإبراهيم النخعي، والسدي، ومقاتل بن حيان: يعني ذبائحهم.

 

وهذا أمر مجمع عليه بين العلماء: أن ذبائحهم حلال للمسلمين؛ لأنهم يعتقدون تحريم الذبح لغير الله، ولا يذكرون على ذبائحهم إلا اسم الله، وإن اعتقدوا فيه تعالى ما هو منزه عن قولهم، تعالى وتقدس۔"

(‌‌[سورة المائدة (5): آية 5]، 40/3، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

معارف القرآن میں ہے:

"صرف نام کے یہودی ونصرانی  جو در حقیقت دہریےہیں وہ  اس میں داخل نہیں

آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد  ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذب ہی کے قائل نہیں ۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسی علیہا السلام کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہل کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہو سکتے ۔"

(سورۃ المائدہ، آیت:5، ج:3، ص:48، ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں