سوال یہ ہےکہ قربانی کے جانوروں میں تصرفات کرنا، مثلا جانور شرعی اعتبار سے قربانی کے لیے اس کی عمر پوری نہیں ہوئی ہے،لیکن اس جانور کے سامنے والے دو دانت کوکسی آلہ کے ذریعے توڑ دیاجاتاہے، تاکہ خرید نے والے یہ سمجھے کہ اس کی عمر قربانی کے لیے پوری ہوچکی ہے،اسی طرح بعض جانوروں کے آپس میں لڑنے کی وجہ سے کان یاسینگ وغیرہ عیب دار ہوجاتاہے لیکن اس کو کسی آلہ کے ذریعے برابر کیا جاتاہے تاکہ عیب نظر نہ آجائے۔ کیا اس طرح کی دھوکا دہی کرنا درست ہے؟ اور ایسے جانورں کی قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر قربانی کے بعد معلوم ہوجائے کہ یہ جانور عیب دار تھا تو اب اس قربانی کا کیا حکم ہے یعنی اس کا دوبارہ اعادہ کرنا لازمی ہوگا یا نہیں؟
واضح رہےکہ دھوکہ دہی،خیانت،اورجھوٹ بولنادینِ اسلام میں ناجائزاورحرام ہے،اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالےمنافع حلال وطیب نہیں ہے؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں قربانی کےجانوربیچنےوالاکاکم عمرجانورجوقربانی کی عمرکونہ پہنچ چکاہو،اس کےدودانت توڑکریہ باورکراناکہ جانورقربانی کی عمرکوپہنچ چکاہے،یاجس جانورکےکان ،سینگ لڑائی میں اس قدرزیادہ ٹوٹ چکےہو کہ جانورعیب دارہوکر قربانی کےقابل نہ رہاہو،اس کومصنوعی طریقہ سےبرابرکرکےدھوکہ دہی سےبیچناجائزنہیں ہے،مذکورہ عیب دارجانورکوخریدنےوالااگرخریدتےوقت یا قربانی سے پہلے عیب پرمطلع ہواتھا،تواس کی قربانی مذکورہ عیب دار جانور کے ذبح کرنے سےادا نہیں ہوگی ،اگر قربانی کرنےکےبعدعیب معلوم ہوا،تومالدار شخص (جس پر قربانی واجب ہو) کی قربانی پھربھی نہیں ہوئی،قربانی کےایام میں دوسراعیب سےپاک جانورقربان کرناواجب ہےاورقربانی کےایام گزرجانےکےبعدجانورکی قیمت صدقہ کرناضروری ہے،البتہ غریب شخص کی قربانی ہوجائےگی، اس پر دوسرا جانورذبح کرنا لازم نہیں ہوگا۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
عن واثلة بن الأسقع قال سمعت رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم يقول من باع عيبا لم ينبه لم يزل في مقت اللَّه أولم تزل الملائكة تلعنه - (رواه ابن ماجه)
حضرت وائلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی عیب دار چیز کو اس طرح بچے کہ ” اس کے عیب سے خریدار کو مطلع نہ کرے تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے۔ یا یہ فرمایا کہ اس پر فرشتے ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“(ابن ماجه )
(كتاب البيوع،باب البیع المنہی عنہ،الفصل الثالث،ج:3،ص:115،ط:البشری)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
1-"ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع، ثم كل عيب يمنع الأضحية ففي حق الموسر يستوي أن يشتريها كذلك أو يشتريها وهي سليمة فصارت معيبة بذلك العيب لا تجوز على كل حال، وفي حق المعسر تجوز على كل حال، كذا في المحيط."
2-"عشرة نفر اشتروا من رجل عشر شياه جملة فقال البائع: بعت هذه العشرة لكم كل شاة بعشرة دراهم، فقالوا: اشترينا، فصارت العشرة مشتركة بينهم، وأخذ كل واحد منهم شاة وضحى عن نفسه جاز، فإن ظهر منها شاة عوراء فأنكر كل واحد من الشركاء أن تكون العوراء له لا تجوز تضحيتهم؛ لأن تسع شياه عن عشرة نفر لا تجوز هكذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الأضحية،الفصل الخامس في بيان محل إقامة الواجب،ج:5،ص:299،ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100402
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن