1۔جب عورت کی بچہ دانی خراب ہوجاتی ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کا آپریشن کر کے دوسری بچہ دانی لگوالیں، یہ دوسری بچہ دانی کسی دوسری عورت کی ہوتی ہے، کیا کسی دوسری عورت کی بچہ دانی لگوانا جائز ہے؟
2۔آج کل انجیکشن کے ذریعے مادہ منویہ عورت کے رحم میں ڈالا جاتا ہے، کیا اس طرح انجیکشن کے ذریعے مادہ منویہ عورت کے رحم میں ڈالنا جائز ہے؟
1۔ کسی انسانی عضو کا (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا) دوسرے انسان کے جسم میں استعمال کرنا (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے) جائز نہیں ہے، جائز نہ ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
(۱) کسی انسان کے جسم سے عضو کے حصول کے لیے انسانی جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔
(۲) کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے مال ہو ، اور دینے والے کی ملک ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے، جب کہ انسان کو اپنے اعضاء سے خود فائدہ اٹھانے کا حق تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو مالکانہ حق حاصل نہ ہو انسان ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔
(۳) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔
(۴) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے الگ کرکے دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے کسی عضو کو نکال کر کسی دوسرے شخص کے جسم پر لگانا جائز نہیں۔
یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیشِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔
اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی کاذریعہ بنےگا،کیوں کہ موجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کےجواز کے فتووں کابےجااستعمال کرتے ہوئےاسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اورانہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:
الف... بازار میں دیگراشیاء کی طرح انسانی اعضاء کی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت کے خلاف اورناجائز ہے۔
ب... غربت زدہ لوگ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاء فروخت کرنا شروع کردیں گے۔
ج... مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ، بالخصوص لاوارث مُردے اپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دولت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔
د... خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا ، بلکہ اس کام کے لیے بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری (یعنی ایک انسان کے جسم سے کوئی عضو نکال کر دوسرے انسان کے جسم میں لگانا) شرعاً جائز نہیں ہے، خواہ عضو عطیہ کرنے والا رشتے دار ہو یا اجنبی ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کسی بھی عورت کی بچہ دانی خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کے کہنے پر اسے دوسری عورت کی بچہ دانی لگوانا جائز نہیں ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہے :
"عن أبي واقد، قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة."
(كتاب الصيد، باب في اتباع الصيد، ج:4، ص:480، ط: دار الرسالة)
فتاوی عا لمگیری میں ہے:
"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع."
(کتاب الھبة، ج:4، ص:374، ط: دار الفکر)
وفیه أیضاً :
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."
(كتاب الوديعة ،ج:4، ص:338، ط:دار الفكر)
شرح سیر الکبیر للسرخسی ؒمیں ہے:
"والآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت. قال - صلى الله عليه وسلم -: «كسر عظم الميت ككسر عظم الحي»."
(باب دواء الجراحة، ص:128، ط: الشركة الشرقية)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."
(کتاب الکراھیة، الباب الثامن عشر، ج:5، ص:354، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"والآدمي مكرم شرعا وإن كان كافرا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه وصرح في فتح القدير ببطلانه."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب الآدمي مكرم شرعا ولو كافرا، ج:5، ص:58، ط: سعید)
فتح الباری میں ہے:
"ويؤخذ منه أن جناية الإنسان على نفسه كجنايته على غيره في الإثم لأن نفسه ليست ملكا له مطلقا بل هي لله تعالى فلا يتصرف فيها إلا بما أذن له فيه."
(كتاب الأيمان والنذور، باب من حلف على الشيء، ج:11، ص:539، ط: دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وشعر الإنسان) غير المنتوف (وعظمه) وسنه مطلقا على المذهب. واختلف في أذنه، ففي البدائع نجسة، وفي الخانية لا، وفي الأشباه: المنفصل من الحي كميتته إلا في حق صاحبه فطاهر وإن كثر. ويفسد الماء بوقوع قدر الظفر من جلده لا بالظفر (ودم سمك طاهر).
(قوله: ففي البدائع نجسة) فإنه قال: ما أبين من الحي إن كان جزءا فيه دم كاليد والأذن والأنف ونحوها فهو نجس بالإجماع، وإلا كالشعر والظفر فطاهر عندنا. اهـ ملخصا (قوله وفي الخانية لا) حيث قال: صلى وأذنه في كمه أو أعادها إلى مكانها تجوز صلاته في ظاهر الرواية. اهـ ملخصا. وعلله في التجنيس بأن ما ليس بلحم لا يحله الموت فلا يتنجس بالموت أي والقطع في حكم الموت. واستشكله في البحر بما مر عن البدائع. وقال في الحلية: لا شك أنها مما تحلها الحياة ولا تعرى عن اللحم، فلذا أخذ الفقيه أبو الليث بالنجاسة وأقره جماعة من المتأخرين. اهـ. وفي شرح المقدسي قلت: والجواب عن الإشكال أن إعادة الأذن وثباتها إنما يكون غالبا بعود الحياة إليها فلا يصدق أنها مما أبين من الحي؛ لأنها بعود الحياة إليها صارت كأنها لم تبن، ولو فرضنا شخصا مات ثم أعيدت حياته معجزة أو كرامة لعاد طاهرا."
(كتاب الطهارة، باب المياه، فروع ما يخرج من دار الحرب، ج:1، ص:207، ط: سعید)
فتاوی عا لمگیری میں ہے:
"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع."
(کتاب الھبة، ج:4، ص:374، ط:دارالفکر)
بحوث في قضايا فقهية معاصرة میں ہے:
"ولكن جاء في الفتاوى الخانية: (قلع سن إنسان، أو قطع أذنه، ثم أعادهما إلى مكانه وصلى، أو صلى وفي كفه سنه أو أذنه، تجوز صلاته في ظاهر الرواية) (2) والمسألة مذكورة في التجنيس، والخلاصة، والسراج الوهاج أيضا، كما في البحر ورد المحتار. واستشكلها بعض العلماء بالأصل المذكور، فإن الأذن تحفها الحياة، فينبغي أن تصير نجسة بالإبانة على ما ذكرنا من أصل الحنفية. وأجاب عنه المقدسي، كما نقل عنه ابن عابدين بقوله: "والجواب عن الإشكال أن إعادة الأذن وثباتها إنما يكون غالبا بعود الحياة إليها، فلا يصدق أنها مما أبين من الحي، لأنها بعود الحياة إليها صارت كأنها لم تبن، ولو فرضنا شخصا مات، ثم أعيدت حياته معجزة، أو كرامة، لعاد طاهرا" (3) وعلق عليه ابن عابدين بقوله: (أقول: إن عادت إليها الحياة فمسلم، لكن يبقى الإشكال لو صلى وهي في كمه مثلا، والأحسن ما أشار إليه الشارح (أي صاحب الدر المختار) من الجواب بقوله وفي الأشباه … إلخ، وبه صرح في السراج (أي حيث قال: والأذن المقطوعة والسن المقطوعة طاهرتان في حق صاحبهما، وإن كانتا أكثر من قدر الدرهم) فما في الخانية من جواز صلاته ولو الأذن في كمه، لطهارتها في حقه، لأنها أذنه) (1) وعبارة الأشباه التي أشار إليها ابن عابدين نصها ما يلي: (الجزء المنفصل من الحي كميته، كالأذن المقطوعة والسن الساقطة إلا في حق صاحبه فطاهر وإن كثر) (2) وتبين بهذه النصوص الفقهية أن العضو المبان من الآدمي ليس نجسا في حق صاحبه عند الحنفية، وكذلك إذا حفته الحياة بعد الإعادة، فإنه ليس نجسا في حق أحد. وإنما النجس عند الحنفية في حق الغير ما أبين من الآدمي فلم تحفه الحياة بالإعادة."
(زراعة عضو استؤصل في حد أو قصاص، ج:281، ط: دار القلم)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:
" انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے، اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں، بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یک ساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے۔ تکریمِِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے۔"
(انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص:36، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائل حاضرہ)
2۔اولاد نعمتِ خداوندی ہے ، ہر شخص کے دل میں اس نعمت کی تمنا ہوتی ہے ، لیکن اس سلسلہ میں بندہ عطاءِ خداوندی کا پابند ہے،بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت دے دیتے ہیں اور بعض کو اس سے محروم کردیتے ہیں ۔ قرآنِ کریم میں ہے :
﴿ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْر... اِنَّه عَلِیْم قَدِیْر﴾ [الشوریٰ،آیت :49،50]
ترجمہ: وہ (اللہ تعالیٰ) عطا کرتاہے جسے چاہتاہے لڑکیاں، اور دیتاہے جس کو چاہتاہے لڑکے، یا لڑکے لڑکیاں ملاکر (دونوں) دیتاہے ان کو، اور جس کو چاہتاہے بانجھ بنادیتاہے، بلاشبہ وہ علم والا قدرت والا ہے۔
اس نعمت کے حصول کے لیے مردکواللہ تعالیٰ نے چارعورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے، لہٰذا اگر بیوی میں کوئی ایسی بیماری ہے جوولادت کے لیے مانع ہے اور دوسری شادی کے اخراجات اور دونوں بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ان میں برابری کی قدرت بھی ہے تو دوسری شادی کرلی جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اولاد کے حصول کے لیے صرف جائز طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے، کوئی بھی ایسا طریقہ جس میں ناجائز امور کا ارتکاب کرنا پڑتا ہو وہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے، جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے جو کہ ناجائز ہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں یعنی مردکامادہ منویہ اورعورت کا بیضہ ملاکر ٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں، پھرانجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً) اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔
اگر شوہر کا مادہ منویہ نکالنے اور بیوی کے رحم میں داخل کرنے کے عمل میں کسی اجنبی مرداور عورت کا دخل نہ ہو، یعنی مادہ منویہ بھی شوہر کا ہی ہو اور اسی کی بیوی کے رحم میں ڈالا جائے اور یہ کام شوہر اور بیوی خودانجام دیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر مادہ منویہ شوہر کے علاوہ کسی اور کا ہو یا شوہر کا مادہ منویہ بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈالا جائے، یا شوہر کے مادہ منویہ کوغیرفطری طریقہ سے نکالنے یا بیوی کے رحم میں داخل کرنے میں تیسرے مردیاعورت کا عمل دخل ہو جس کی وجہ سے اجنبی مردیاعورت کے سامنے ستر کھولنے یا چھونے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں؛ کیوں کہ اولاد (بیٹا یا بیٹی )کے حصول کے لیے کئی گناہوں کا ارتکاب جائز نہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:371، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وذكر شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - في شرح كتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم يكن ثمة ضرورة ولكن فيها منفعة ظاهرة بأن يتقوى بسببها على الجماع لا يحل عندنا."
(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له، ج:5، ص:330، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولا يجوز لها أن تنظر ما بين سرتها إلى الركبة إلا عند الضرورة بأن كانت قابلة فلا بأس لها أن تنظر إلى الفرج عند الولادة.وكذا لا بأس أن تنظر إليه لمعرفة البكارة في امرأة العنين والجارية المشتراة على شرط البكارة إذا اختصما وكذا إذا كان بها جرح أو قرح في موضع لا يحل للرجال النظر إليه فلا بأس أن تداويها إذا علمت المداواة فإن لم تعلم تتعلم ثم تداويها فإن لم توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخيف عليها الهلاك أو بلاء أو وجع لا تحتمله يداويها الرجل لكن لا يكشف منها إلا موضع الجرح ويغض بصره ما استطاع لأن الحرمات الشرعية جاز أن يسقط اعتبارها شرعا لمكان الضرورة."
(كتاب الاستحسان، ج:5، ص:124، ط: دار الكتاب الإسلامي)
الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:
"التلقيح الصناعي:هو استدخال المني لرحم المرأة بدون جماع. فإن كان بماء الرجل لزوجته، جاز شرعاً، إذ لا محذور فيه، بل قد يندب إذا كان هناك ما نع شرعي من الاتصال الجنسي."
(القسم الأول العبادات، الباب السابع الحظر والإباحة، المبحث الرابع الوطء والنظر واللمس...الخ ، أولا: الوطء، ج:4، ص:2649، ط: دار الفكر)
وفیه أیضاً:
"السادسة: أن تؤخذ نطفة من زوج وبييضة من زوجته ويتم التلقيح خارجياً ثم تزرع اللقيحة في رحم الزوجة.
السابعة: أن تؤخذ بذرة الزوج وتحقن في الموضع المناسب من مهبل زوجته أو رحمها تلقيحاً داخلياً.
أما الطريقان السادس والسابع فقد رأى مجلس المجمع أنه لا حرج من اللجوء إليهما عند الحاجة مع التأكيد على ضرورة أخذ كل الاحتياطات اللازمة".
(القسم الرابع الملكية وتوابعها، معالم النظام الاقتصادي في الإسلام، قرارات مجمع الفقه الإسلامي، الدورة الثالثة، أطفال الأنابيب، ج:7، ص:5100، ط: دار الفكر)
فتاوی بینات میں مفتی عبد السلام صاحب لکھتے ہیں:
" ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ اولاد پیدا کرنے کا دوسرا طریقہ جس میں مرد اور عورت دونوں میاں بیوی ہوں مگر فطری طریقہ سے ہٹ کر غیر فطری طریقہ سے مرد کے جرثومے اور عورت کے جرثومے کو نکال کرخاص ترکیب سے بیوی کے رحم میں داخل کرتے ہیں۔ اس کا حکم پہلے سے مختلف ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شوہر کا مادہ منویہ عورت کے رحم میں داخل کیا گیا جو کہ نا جائز نہیں ہے۔ اس طرح اس سے حمل ٹھہرا تو بچہ ثابت النسب ہوگا اور اس میں کوئی تعزیری حکم نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے کہ زنا کے حکم میں نہیں ہے اور اس میں گناہ بھی نہیں ہوگا۔ جبکہ دونوں کے جرثومے کے نکالنے اور داخل کرنے میں کسی اجنبی مرد اور عورت کا عمل دخل نہ ہو بلکہ سارا کام بیوی اور شوہر خود ہی انجام دیں، لیکن شوہر اور بیوی کے جرثومے کو غیر فطری طریقہ سے نکالنے اور عورت کے رحم میں داخل کرنے میں اگر تیسرے مرد یا عورت کا عمل دخل ہوتا ہے اور اجنبی مرد یا عورت کے سامنے شرمگاہ دیکھنے یا دکھانے اور مس کرنے یا کرانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح بے حیائی اور بے پردگی کے ساتھ بچہ پیدا کرنے کی خواہش پوری کرنے کی اجازت شرعا نہ ہوگی ۔ کیونکہ بچہ پیدا کرنا کوئی فرض یا واجب امر نہیں ہے، نہ ہی بچہ پیدا ہونے سے انسان کو جان یا کسی عضو کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ تو گویا کہ کوئی شرعی ضرورت و اضطراری کیفیت نہیں پائی جاتی ، جس سے بدن کے مستور حصے خصوصا شرمگاہ کو اجنبی مرد یا عورت ڈاکٹر کے سامنے کھولنے کی اجازت ہو۔ لہذا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے دوسرے طریقہ کو اگر کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے تو جائز نہیں ہے۔ یعنی گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوگا۔ تاہم بچہ کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا۔ اس کو باپ سے وراثت ملے گی ۔ صحیح اولاد کے احکام اس پر جاری ہوں گے"۔
(کتاب الحظر والإباحۃ، ج:4، ص:317/318، ط: مکتبہ بینات)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن