میرے بہنوئی کا انتقال ہوگیا ہے، میری بہن اور میرے بہنوئی کی ایک بہن موجود ہے، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، ان کے تمام بھائیوں کا ان کی موجودگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا،ان بھائیوں کی اولاد موجود ہے، جس میں دو بھتیجے اورسات بھتیجیاں ہیں، میرے پاس بہنوئی کی امانت پڑی ہوئی ہے، جو بہتر لاکھ دو ہزار سات سو چونسٹھ روپے ہیں اور کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہے، شرعی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا ان کے ورثاء میں وہ رقم تقسیم کی جائے گی؟ میرے بہنوئی کے کوئی چچا بھی حیات نہیں ہیں، البتہ ان کی اولاد موجود ہے، کیا ان کو بھی حصہ ملے گا؟
ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بہن اور دو بھتیجے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے پاس بطورِ امانت مرحوم کےجو پیسے ہیں، وہ پیسےمرحوم کے ترکہ میں شمار ہوں گےاور سائل کے ذمہ وہ پیسے مرحوم کے ورثاء کو لوٹا نے لازم ہیں۔
نیز مرحوم کےبھتیجوں کی موجودگی میں مرحوم کے چچا زاد بھائی میراث کے حق دار نہیں ہوں گے۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگران کے ذمے کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد اور اگرانہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ کو8 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی بیوہ کو 2 حصے، مرحوم کی بہن کو 4 حصے اور دونوں بھتیجوں میں سے ہر ایک بھتیجے کو 1، 1 حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم بہنوئی:8/4
بیوہ | بہن | بھتیجا | بھتیجا |
1 | 2 | 1 | |
2 | 4 | 1 | 1 |
یعنی 7,202,764 روپوں میں سے مرحوم کی بیوہ کو 1,800,691 روپے، مرحوم کی بہن کو 3,601,382 روپے اور ہر ایک بھتیجے کو 900,345.5 روپے دیے جائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة) والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له)."
(کتاب اللقطۃ، مطلب فیمن علیہ دیون ومظالم جھل اربابھا، ج:4، ص:283، ط:سعید)
وفیه أیضًا:
"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى."
(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:774، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101361
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن