میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم چار بھائی جوائٹ فیملی میں ساتھ رہتے تھے،اس کےبعد میرے علاوہ تینوں بھائی سعودی عرب چلے گئےتھےاور مجھے کہاکہ آپ پاکستان میں ہی رہواور ہمارے گھر والوں کی دیکھ بھال کرو،میں نے ان سب بھائیوں کو بار بار کہا تھا کہ میں بھی سعودی عرب جاؤں گاتو ان سب نے مجھے یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم جو بھی کمائیں گےاس میں آپ کا بھی حصہ ہوگا،اب یہ تینوں بھائی اپنی اپنی الگ الگ جائیداد بناچکے ہیں، مجھے کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں، اور والد صاحب کی کچھ جائیداد افغانستان میں بھی ہے بڑے بھائی اس جائیداد کو بھی تقسیم نہیں کررہے ہیں اور جب بڑے بھائی سے میں نے ان کی جائیداد میں سے حصہ مانگا،تو بڑے بھائی نے کہا تھاکہ ہم سب بھائی پانچ پانچ لاکھ روپےدیں گے، لیکن اب بڑے بھائی وہ پانچ لاکھ روپے بھی نہیں دے رہے ہیں، اب میں اپنے بھائیوں سے اپنا حق چاہتا ہوں،قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے بھائیوں نےسائل سے ان کے گھر والوں کی دیکھ بھال کرنے پر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ” ہم جو بھی کمائیں گے وہ سب میں مشترک ہوگا، اس میں آپ کا بھی حصہ ہوگا“،اگر سائل نے اس معاہدہ کے مطابق اس ذمہ داری کو نبھایا ہے تو اب اس معاہدہ کی رو سے سائل کا ہر ایک بھائی کے ساتھ اس کی کمائی میں حصہ ہے،بھائیو ں کے ذمہ لازم ہے کہ وہ سائل کو اپنی کمائی میں سے اس کا حصہ ا دا کریں ۔
اسی طرح مرحوم والد کے ترکہ میں سے سائل کا جوحصہ بن رہا ہے،بھائیوں کے ذمہ لازم ہے کہ وہ سائل کو ان کا حصہ اداکرے ، اگر دنیا میں ادا نہیں کریں گے ،آخرت میں ضرور دینا ہو گا اور آخرت میں دینا بہت مشکل ہے، وہا ں نیکیوں اورجنت سے محرومی ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا تصح إلا بلفظ المفاوضة) وإن لم يعرفا معناها سراج (أو بيان) جميع (مقتضياتها) إن لم يذكر لفظها إذ العبرة للمعنى لا للمبنى .
(قوله: وإن لم يعرفا معناها) ؛ لأن لفظها علم على تمام المساواة في أمر الشركة فإذا ذكراه تثبت أحكامها إقامة للفظ مقام المعنى فتح (قوله: أو بيان جميع مقتضياتها) بأن يقول أحدهما وهما حران بالغان مسلمان أو ذميان شاركتك في جميع ما أملك من نقد وقدر ما تملك على وجه التفويض العام من كل منا للآخر في التجارات والنقد والنسيئة، وعلى أن كلا ضامن عن الآخر ما يلزمه من أمر كل بيع فتح."
(كتاب الشركة ، ج : 4 ، ص : 307 ،ط : دارالفکر)
دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه على ما يبين في الفصل الثالث والرابع) يشترط في قسمة القضاء أن يكون المال المشترك قابلا للقسمة فلذلك إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم ."(مجمع الأنهر)
(المادة ؛ (1130) طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر ، ج : 3 ، ص : 128 ، ط : دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102717
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن