بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کو دکان اور مکان ہبہ کرنے کا حکم


سوال

والد صاحب نےاپنی حیات  میں  ایک گھرمجھے گفٹ کیا تھااور گھرکے باہر بیٹھ کر تحریری طور پر ہبہ نامہ لکھا تھا اور اس پرگواہ بھی  بنالیےتھے ،یہ سب معاملہ گھر کےباہر ہوا،گھر کے ساتھ گھر کا سارا سامان بھی ہبہ کردیا تھا،ہبہ کے بعد والد صاحب  اس مکان میں  رہائش پذیر بھی رہے تھے۔

اسی طرح میرے والد صاحب کی ایک دکان تھی،شروع ہی سے میں والد صاحب کے ساتھ اس دکان میں کام کرتا رہا،2017ء میں والد صاحب نے تحریری طور پر وہ دکان میرے نام ہبہ کردی،اور ہبہ کرنے کےبعدوالد صاحب نے دکان کےسارےامورومعاملات میرے حوالیے کردیےاورپھرمستقل دکان میرے انڈر میں آگئی،چابیاں بھی میرے پاس تھیں،والد صاحب کبھی کبھی  دکان چکر لگایا کرتے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر مکان میں موجود سامان بھی مکان کے ساتھ ہبہ کردیا جائے  تو پھر اس مکان اور  موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے)  میں تخلیہ کردینا کافی ہے، اور  تخلیہ کی صورت یہ ہے کہ  واہب کچھ وقت کے لیے اس مکان سے نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،  پھر ہبہ کرنے والا اگر موہوب لہ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کی اجازت سے اس مکان میں رہائش اختیار کرے تو یہ ہبہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کی روسے جب مرحوم والد  نےاپنی حیاتی میں اپنا مکان سامان سمیت اپنے بیٹے(سائل) کو ہبہ کردیااورمکان کے باہر بیٹھ کر تحریری طور پر  گواہوں کی موجودگی میں ہبہ نامہ لکھا تو شرعاً یہ ہبہ( گفٹ)تام ہوچکا تھا،اس کے بعدمرحوم والد  کا اس مکان میں رہا ئش اختیار کرناہبہ( گفٹ) کے تام ہونے سے مانع نہیں تھا،لہذااب والد کے انتقال کے بعد مذکورہ مکان سامان سمیت  سائل کی ملکیت ہے،اس میں مرحوم کے دیگر ورثاء کا کوئی حصہ نہیں  ہے۔نیز اگر  واقعۃ ً مرحوم والد  صاحب  نےزندگی میں اپنی دکان  سائل کے نام گفٹ کرکے دکان کےسارےامورومعاملات اس کے حوالیے کردیے تھے،یعنی دکان پرمکمل  قبضہ اور تصرف کا حق  دیا تھا تو اب والد کے انتقال کے بعد  دکان سائل کی ملکیت ہے،اسے مرحوم کی وراثت  کے طور پر ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ج:4، ص:378، ط: رشیدیة )

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

" أما هبة المشغول فلا تجوز أي لا تجوز هبة المال المشغول بمتاع الواهب وملكه (البهجة) ؛ لأن الموهوب إذا كان مشغولا بمتاع الواهب كان كالمشاع وفي حكمه. مثلالو وهب أحد داره المشغولة بأمتعته وسلمه إياها فلا تجوز. إلا إذا سلمها بعد تخليتها من الأمتعة المذكورة. فحينئذ تصح الهبة كما تصح لو وهبه الأمتعة أيضا وسلمه الكل معا(انظر المادة 24) (الطحطاوي)۔۔۔۔لو ‌سلم ‌الواهب الدار وهو موجود فيها أو أهله فلا يصح هذا التسليم (الهندية عن الخانية)."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، المبحث الأول في حق الشروط الباقية المتعلقة بالموهوب، ج:2، ص:427، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں