بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دکان دار کا دوسرے دکان دار سے مال لے کر بیچنا


سوال

ہمارے یہاں دکان میں بعض اوقات گاہک آتا ہے، ہماری دکان  میں وہ چیز موجود نہیں ہوتی ہیں تو ہم دوسری دکان سے لاکر اس کو دکھاتے ہیں، پسند آنے پر اس کو بیچ دیتے ہیں اور اس کو پسند نہ آنے پر پہلے دکان والے کو واپس کر دیتے ہیں اور یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ چیز ہم دکان والے کی رضامندی سے لے کر آتے ہیں، کیا یہ طریقہ خرید و فروخت درست ہے؟

جواب

مذکورہ معاملے کی چند صورتیں ممکن ہیں، ذیل میں وہ صورتیں اور ان کے اَحکام لکھتے جاتے ہیں:

1- ایک دکان دار کا اپنے گاہک کے مطالبہ پر مطلوبہ چیز نہ ہونے کی صورت میں وہ چیز دوسری دکان سے لاکر اپنے گاہک کو دینے کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلا دکان دار ، دوسرے دکان دار سے مطلوبہ چیز بطورِ قرض (loan ) لیتا ہے تو  اس میں کوئی حرج نہیں، اگر گاہک مطلوبہ چیز خرید لے تو پہلا دکان دار اپنا مال آنے کے بعد وہ چیز دوسرے دکان دار کو واپس کردے، لیکن اگر گاہک مطلوبہ چیز نہ خریدے تو پہلا دکان دار دوسرے دکان دار سے لی ہوئی چیز واپس کردے۔

2- دوسری صورت یہ ہے کہ پہلا دکان دار، دوسرے  سے مطلوبہ چیز خرید کر لیتا ہے اپنے گاہک کو دینے کے لیے، یہ ’’بیع تعاطی‘‘  کہلائے گی، اور یہ صورت بھی درست ہے، پھر اگر پہلے دکان دار سے گاہک مطلوبہ چیز خرید لے تو ٹھیک، لیکن اگر گاہک نے وہ چیز نہ خریدی تو  پہلا دکان دار ، دوسرے کو وہ چیز واپس لینے پر مجبور نہیں کرسکتا، بلکہ اسے وہ چیز خود ہی رکھنی پڑے گی، البتہ اگر دوسرا دکان دار وہ چیز اپنی خوشی ورضامندی سے واپس لے لے تو یہ جائز، بلکہ اس کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے۔

البتہ اس صورت میں سونے چاندی اور کرنسی کی اُدھار بیع درست نہیں ہوگی، اس کی تفصیل آخر میں آرہی ہے۔ 

3- تیسری  صورت یہ ہے کہ پہلا دکان دار مطلوبہ چیز دوسرے دکان دار  سے اس شرط پر خریدے کہ اگر میرے گاہک نے یہ چیز لے لی تو ٹھیک، ورنہ میں آپ کو یہ چیز واپس کردوں گا تو یہ صورت جائز نہیں ہوگی، کیوں کہ یہ بیع شرط فاسد  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بیع فاسد ہے۔

4- چوتھی صورت یہ ہے کہ پہلا دکان دار، دوسرے سے مطلوبہ چیز نہ ہی بطور قرض لے، اور نہ ہی خریدے، بلکہ یوں کہے کہ فلاں چیز ذرا دینا، میں ابھی بتاتا ہوں کہ خرید رہا ہوں یا نہیں، تو اس صورت میں اگر گاہک مطلوبہ چیز لینے پر راضی ہو جائے تو  پہلے دکان دار کے لیے وہ چیز گاہک پر فروخت کرنا اس وقت تک جائز نہ ہوگا جب تک وہ باقاعدہ اس چیز کو دوسرے دکان دار سے خرید نہ لے، ورنہ غیر مملوکہ چیز کو بیچنا لازم آئے گا جو کہ ناجائز ہے۔

5- ایک  جائز صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلا دکان دار ، دوسرے سے مطلوبہ چیز   خریدتے ہوئے خیارِ شرط لگالے کہ میں یہ چیز آپ سے خرید رہا ہوں، لیکن مجھے تین دن تک اختیار ہوگا، اگر میں چاہوں تو تین دن کے اندر یہ چیز آپ کو واپس کر سکتا ہوں، تو اس صورت میں اگر دوسرا دکان دار اس شرط کو قبول کر لے تو پہلے دکان دار کو مطلوبہ چیز خریدنے کے باوجود (بوجہ بیع تام نہ ہونے کے )  تین دن تک اسے واپس کرنے کا اختیار ہوگا، اور اس شرط سے یہ بیع فاسد نہیں ہوگی؛ کیوں کہ بیع میں خیارِ شرط لگانے کا جواز حدیث سے ثابت ہے، لیکن تین دن سے زیادہ کا خیار رکھنا جائز نہیں ہے۔

لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1- دونوں دکان داروں کو چاہیے کہ آپس کے لین دین کے وقت یا پہلے سے اس لین دین کی حیثیت متعین کرکے معاہدہ کرلیں، تاکہ بعد میں کسی نزاع اور جھگڑے کا باعث نہ بنے، اور ایک جائز صورت متعین ہو،  ورنہ مجہول لین دین ہونے کی صورت میں بھی یہ معاملہ ناجائز ٹھہرے گا۔

2- جب تک فروخت کردہ چیز پہلے دکان دار کی ملکیت میں نہ آجائے وہ اپنے گاہک سے یوں نہ کہے کہ میں نے یہ تمہیں بیچ دی، یا یوں نہ کہے کہ میرے پاس موجود ہے، کیوں کہ پہلی صورت میں غیر مملوک کی بیع لازم آئے گی اور دوسری صورت میں جھوٹ لازم ہوگا۔

نوٹ: سونا، چاندی اور کرنسی کی خرید و فروخت میں چوں کہ مجلسِ عقد میں ہی جانبین سے قبضہ ضروری ہے؛ لہٰذا اگر کسی سُنار کے پاس کوئی خریدار آئے اور  سنار کے پاس مطلوبہ زیور موجود نہ ہو، اور دوسرے سے لے کر اپنے گاہک کو دے تو اُسے چاہیے کہ وہ دوسرے سنار سے قرض کا معاملہ کرے، یعنی اس زیور کا جتنا وزن ہے اتنا زیور بطورِ قرض لے، یا دوسرے سنار کا وکیل بن کر اپنے گاہک سے نقد سودا کرے، اور جانبین سے مجلسِ عقد میں ہی قبضہ پایا جائے،اگر پہلے سنار سے نے دوسرے سنار سے یوں سودا کیا کہ یہ ابھی مجھے یہ زیور دے دو، میں بعد میں اس کی قیمت دے دوں گا، یہ اُدھار سودا ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں ہوگا، خواہ خیارِ شرط کے ساتھ ہو یا بیعِ تعاطی کی صورت میں۔

اسی طرح کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم ہوگا، لہٰذا اگر کسی منی ایکسچینج والے کے پاس کوئی گاہک آئے اور مثلًا اسے ریال چاہیے ہوں، اور اُس کے پاس ریال موجود نہ ہوں تو وہ دوسرے دکان دار سے ریال بطورِ قرض لے لے، اور بعد میں اتنے ہی ریال واپس کردے، خواہ ان کی قیمت بڑھے یا گھٹے، اگر یوں سودا کیا کہ مجھے ریال دے دو، بعد میں جو قیمت ہوگی، میں دوسری کرنسی (مثلًا: روپے) میں ادا کردوں گا، اس طرح سودا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں