بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک حدیث کی تخریج وتشریح اور حکم


سوال

درج ذیل حدیث کے ترجمہ ، حوالہ ، سند اور تشریح کے متعلق رہنمائی کیجیے :

حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يُحَدِّثُ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ، وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ، فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ، قَا لَ: فَحَلَّهُ فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا.

جواب

مذکورہ حدیث،  صحیح بخاری ،صحیح مسلم  اور سنن بیہقی میں  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے   نقل ہے۔اس کے سند کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اس کا تر جمہ درج ذیل ہے: 

’’عمرو بن دینار  کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما  کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ:  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ شریف کے لیے لوگوں کے ساتھ پتھر لا  رہے تھے۔  آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ علیہ السلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے(آپ سے)  کہا کہ بھتیجے! کاش، تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے !(تاکہ تم پر آسانی ہو جائے)حضرت جابر نے کہتے ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ علیہ الصلاۃ و السلام کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔

تشریح:

یہ واقعہ نبوت ملنے سے پانچ سال یا اس سے بھی پہلے کا ہے۔ ستر کھولنا  دورِ جاہلیت میں کوئی عیب کی بات نہیں تھی، اس لیے  ضرورت کے وقت وہ لوگ بلا تکلف، بغیر کسی جھجک وشرم کے  سب کے سامنے ستر کھول لیتے تھے، طواف بھی برہنہ کرتے تھے۔ لیکن   جناب نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم اس روش وعادت   سےبالکل محفوظ تھے۔ اس لیے تعمیر ِکعبہ کے موقع پر پتھر جمع کرتے وقت آپ کندھے مبارک پر پتھر کی سختی برداشت کرتے رہے،  لیکن  پتھر کی سختی سے بچنے کے لیے ازار کو کھول کر  پتھر کے نیچے نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ آپ کے چچا حضرت عباس جو ساتھ میں  پتھر لا رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر برداشت  نہ کرسکے، اور فرمایا کہ بھتیجے، کاش! آپ ازار کھول کر پتھر کے نیچے رکھدیتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ کو حکم دیا کہ بھتیجے! اپنا ازار کھول کر کندھے پر رکھدے؛ تاکہ پتھر کی سختی سے آپ بچ جائے۔آپ نے عم محترم کے  حکم پر ازار کھولا، لیکن حیا وشرم کے مارے  آپ گر کر بے ہوش ہوگئے، حالانکہ قمیص آپ کے جسم اطہر  پر  موجودتھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوکر ،  آپ علیہ السلام کا ازار آپ پر باندھا، یاآپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور آپ کا  ازار باندھا، یا آپ  جیسے ہوش میں آئے تو میرا ازار ، میرا ازار کہتے ہوئے  خود ہی ازار باندھ لیا۔

"حدثنا مطر بن الفضل قال حدثنا روح قال حدثنا زكرياء بن إسحق حدثنا عمرو بن دينار قال سمعت جابر بن عبد الله يحدث:  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينقل معهم الحجارة للكعبة، وعليه إزاره، فقال له العباس عمه: يا ابن أخي، لو حللت إزارك، فجعلت على منكبيك دون الحجارة، قال: فحلَّه، فجعله على منكبيه، فسقط مغشيا عليه، فما رئي بعد ذلك عريانا صلى الله عليه وسلم ".

(أخرجه البخاري في  باب كراهية التعري في الصلاة وغيرها  (1/ 143) برقم (357)، ط. دار ابن كثير، اليمامة، بيروت، الطبعة الثالثة :1407 =1987)، ومسلم في باب الاعتناء بحفظ العورة (1/ 184) برقم (798)، ط.  دار الجيل  ـ بيروت)،  والبيهقي عن ابن عباس في باب عورة الرجل (4/ 200) برقم (3267)، ط. مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية، الطبعة الأولى: 1432 هـ =2011 م)

(وأخرجه البخاري في صحيحه في باب بنيان الكعبة (3/ 1392) برقم (3617) أیضًا):

"حدثني محمود حدثنا عبد الرزاق قال أخبرني ابن جريح قال أخبرني عمرو بن دينار سمع جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: لما بنيت الكعبة ذهب النبي صلى الله عليه وسلم وعباس ينقلان الحجارة، فقال عباس للنبي صلى الله عليه وسلم: (اجعل إزارك على رقبتك يقيك من الحجارة فخر إلى الأرض، وطمحت عيناه إلى السماء، ثم أفاق فقال: (إزاري، إزاري)، فشد عليه إزاره".

عمدۃ القاری میں ہے:

"وجاء في رواية غير (الصحيحين): (إن الملك نزل عليه فشد إزاره).....ذكر ما فيه من الفوائدں، منها: أن النبي كان في صغره محميا عن القبائح، وأخلاق الجاهلية، منزها عن الرذائل والمعايب قبل النبوة وبعدها. ومنها: أنه كان جبله اتعالى على أحسن الأخلاق والحياء الكامل، حتى كان أشد حياء من العذراء في خدرها، فلذلك غشي عليه، وما رؤي بعد ذلك عريانا".

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: باب كراهية التعري في الصلاة وغيرها (4/ 72)، ط. دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144602100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں